4۔ ابن عون رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)کا قول ہے کہ ’’اِمام شعبی رحمہ اللہ (م ۱۰۳ھ)مسئلہ پیش کرنے کچھ احتیاط فرماتے جبکہ،ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (م۹۶ھ)خوب مسائل بیان کرتے تھے۔‘‘۱۸؎ پس حدیث، فقہ اور مسائل دوسرے طرز پر مدون کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اس لئے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہ تھے جن سے ان اصولوں کے موافق ،جن کواہل الحدیث نے پسند کیا ہے، استنباطِ فقہ پر قادر ہوتے۔ ان کا اپنے اِماموں کے متعلق یہ اعتقاد تھا کہ وہ نہایت اعلیٰ درجے کے محقق ہیں اور ان کے دلوں کا میلان سب سے زیادہ اپنے اصحاب کی طرف ہی تھا۔ ان لوگوں میں فطانت، سمجھ اور ایک شے سے دوسری شے کی طرف ذہن کا سرعت انتقال اس درجہ تھا کہ وہ اس کے ذریعے اپنے اصحاب کے اقوال کے مطابق جواب مسائل کی تخریج بخوبی کرسکتے تھے۔۱۹؎ دونوں مکتبہ ہائے فکر میں اختلاف کے اثرات مذکورہ دلائل کی روشنی میں دونوں فرقوں کے درمیان اختلاف کی وجہ فقہائے اہل الرائے کا طریقہ کار نظر آتا ہے کہ اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے فقہاء اہل الرائے رحمہم اللہ کا طریق کار یہ ہے کہ جب وہ شریعت سے ایک اصول اپنے اجتہاد سے قائم کر لیتے ہیں تواجتہاد کو مستقل حیثیت دینے کی وجہ سے اس کے خلاف آنے والے تمام دلائل کی تاویل کرتے ہیں ۔ ٭ علمائے احناف رحمہم اللہ کے موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ کرخی رحمہ اللہ (م ۳۴۰ ھ) کہتے ہیں : ’’جو قرآن کی آیت یا حدیث ہمارے اِمام کے قول کے مخالف ہو تو سمجھ لو کہ یا تو وہ مؤول ہوگی یا منسوخ، اور کوئی صورت نہیں ۔‘‘۲۰؎ ٭ اس ضمن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ) مزید لکھتے ہیں : ’’فقہاء کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایسی حدیث کو رد کرنا جائز ہے جو کہ قیاس کے مخالف ہو۔۲۱؎ اس کے بالمقابل فقہاء اہل الحدیث رحمہم اللہ کہتے تھے کہ چونکہ اجتہاد ایک ضرورت ہے نیز ا س کی مستقل حیثیت نہیں اور یہ شریعت کے تابع ہے اس لیے جب اسکا ٹکراؤ شریعت سے نظر آئے تو اسے مکمل طور پر نظر انداز کردیا جائے۔ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ) فقہائے اہل الحدیث رحمہم اللہ کے موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اجتہاداور قیاس ضرورت کے وقت ہوگا۔اور یہی بات ہر مسلما ن پر واجب ہے کیونکہ رائے کا اجتہاد مضطرب کے لیے مباح ہے جیسا کہ اس کے لیے ضرورت کے وقت مردار اور خون مباح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :پس جو بھی مجبور کر دیا گیا اس حال میں کہ وہ نہ تو زیادتی کرنے والاہو اور نہ ہی حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے،بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔اسی طرح قیا س بھی ضرورت کے وقت ہو گا۔ ٭ اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ)کہتے ہیں : ’’ میں نے اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) سے قیاس کے بارے میں سوال کیا: تو انہوں نے جواب دیا:ضرورت کے وقت ہو گا۔‘‘۲۲؎ اس اثر کو اِمام بیہقی رحمہ اللہ (م ۴۵۸ھ)نے ’مدخل‘ میں بیان کیا ہے ۔‘‘۲۲؎ ٭ اسی ضمن میں علامہ ابن سمعانی رحمہ اللہ (م ۴۸۹ھ) مزید فرماتے ہیں : ’’جب خبر ثابت ہو جائے تو وہ اصول شرعیہ میں سے ایک اصل بن جاتی ہے اور اس کو کسی دوسری اصل پر پیش کرنے کی احتیاج نہیں ہوتی کیونکہ اگر تو وہ اس کے موافق ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اس کے مخالف ہو توان میں سے کسی ایک کو بھی رد کرنا جائز نہیں ہوتا اس لیے کہ |