Maktaba Wahhabi

267 - 432
سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم کہتے ہو فلاں شخص نے ایسا ایسا کہا ہے۔‘‘۱۳؎ 10۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور مالک بن انس رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) سے مروی ہے وہ کہا کرتے تھے:’’کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے قول کو اختیار اور رد نہ کیا جائے بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے۔‘‘۱۴؎ پس محققین اہل الحدیث فن روایت و معرفت،مراتب احادیث کو مکمل کرنے کے بعد فقہ کی طرف مائل ہوئے اور جب بہت سی احادیث اور آثار کو انہوں نے موجودہ مذاہب (حنبلی، شافعی، مالکی، ظاہری وغیرہ) کے مخالف دیکھا تو متقدمین میں سے کسی خا ص اِمام کی پیروی کو تقلید کرنے پر اتفاق کو انہوں نے درست نہ سمجھا۔ ان کا مسلک یہ تھا کہ جب کسی مسئلے میں قرآن ناطق ہو تو کسی دوسری شے کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں ہے اور جب آیت قرآنی میں چند احتمالات ہوں تو اس کا فیصلہ حدیث سے کرنا چاہیے۔ لہٰذا جب کسی مسئلہ میں ان کو حدیث مل جاتی تو اس کے خلاف کسی اثر یا اجتہاد کی اتباع کبھی نہ کرتے تھے اور اگر حدیث سے بھی مسئلہ واضح نہ ہوتا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال پر عمل کرتے اور اس میں وہ کسی قوم یا شہر کے پابند نہ تھے۔ اگر کسی مسئلے میں جمہورعلماء اور فقہاء رحمہم اللہ کو متفق پاتے، تو اس پر قناعت کرتے تھے اور مسئلہ کے مختلف فیہ ہونے کی صورت میں جو بڑا عالم پرہیزگار یا زیادہ ضابط اور مشہور ہوتا اس کی حدیث کو لیتے تھے۔ جب کسی مسئلہ میں مساوی قوت کے دو قول ہوتے تو وہ مسئلہ ذات القولین (یعنی اس میں دونوں جہتیں درست ہیں )رہتا تھا اور مسئلہ تب بھی حل نہ ہوتا توکتاب و سنت کی عام تعبیرات، اِن کے اشارات اور اقتضاء ات میں غور کرکے اس طریقہ پر اعتماد کرتے جو صاف سمجھ میں آئے اور دل کو اس سے اطمینان میسرآئے۔ المختصر فقہائے اہل الحدیث کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ شرع میں اجتہاد کی جو اہمیت آئی ہے اس سے انکا رنہیں ، لیکن اس کے باوجود شریعت میں اجتہاد کو مستقل مقام نہیں دیا گیا۔ استنباطِ مسائل میں فقہائے اہل الرائے رحمہم اللہ کا طریقہ کار اِمام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (م ۹۶ھ) جو فقہائے اہل الرائے کے اِمام ہیں وہ اس بات کے قائل تھے کہ شریعت میں فہم و فقہ ہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو بطور نعمت ملی ہے، چنانچہ اس نعمت میں شریعت کے ساتھ ساتھ اجتہاد کو بھی مستقل حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے جب کوئی اجتہاد کی شرائط کا حامل فقیہ ومجتہد شریعت سے کوئی بات سمجھتا ہے تو اس کی فقہ وبصیرت چونکہ ایک مستقل حیثیت کی حامل چیز ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا یہ اجتہاد تعبیر دین میں قرآن کی تعبیر ’سنت‘ کی مثل اہمیت رکھتا ہے۔ فقہائے اہل الرائے میں سے اکثریت کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ استنباط مسائل میں فقہ واستنباط کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو مسائل کے بیان کرنے میں کوئی برائی محسوس نہ کرتے تھے اور فتویٰ دینے سے خوف نہ کھاتے تھے، جیساکہ ذیل کی امثلہ سے واضح ہوتا ہے: 1۔سفیان رحمہ اللہ (م ۱۶۱ھ)، اِمام وکیع رحمہ اللہ (م ۱۹۷ھ)اور ان کے امثال کی حالت یہ تھی کہ وہ نہایت اہتمام سے اجتہاد کرتے تھے، لیکن حدیث مرفوع متصل ایک ہزار سے کم ہی ان کو حاصل ہوئی تھی۔۱۵؎ 2۔ اِمام شعبی رحمہ اللہ (م ۱۰۳ھ)نے کہا کہ ’’نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے سوا کسی کی طرف نسبت کرنا ہمارے نزدیک پسندیدہ ہے۔‘‘۱۶؎ 3۔ اِمام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (م ۹۶ھ) کہتے ہیں کہ’’ مجھ کو یہ کہنا اچھا لگتا ہے کہ علقمہ رحمہ اللہ (م ۶۲ھ)نے کہا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔‘‘۱۷؎
Flag Counter