کے بغیر قرآن کی تشریح کی ضرورت باقی رہتی ہے، اسی طرح فقہ کے بغیر دین کی تشریح کی ضرورت باقی رہتی ہے۔اور ’فقہ ائمہ‘ کے ذریعے سے دین ِاسلام کی بالکل اسی طرح حتمی تعبیر کردی گئی ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ذریعے سے قرآن کریم کی حتمی تفسیر کردی گئی تھی۔ اب جس طرح تاقیامت سنت کو قرآن سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ، عین اسی طرح ائمہ کی فقہی تعبیرات کو دین سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم و فقہ ائمہ دونوں سے روگردانی یا پہلو تہی گمراہی کا باعث ہوگی۔ استنباط ِمسائل میں فقہائے اہل الحدیث کاطریقہ کار محققین فقہائے اہل الحدیث مسائل دین میں غیر متوازن غوروخوض کرنے کو برا جانتے تھے اور فتویٰ دیتے ہوئے یا استنباط کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ نہایت ہی ضروری موقع پر جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا تھا، استنباط کرتے تھے۔ وہ اس بات کا بہت اہتمام فرماتے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت بیان کریں ۔ ذیل میں فقہائے اہل الحدیث کے اس طرز عمل کی چند امثلہ ملاحظہ فرمائیں: 1۔ ایک دفعہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مسئلہ دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں ناپسندکرتاہوں کہ تیرے لئے اس شے کو حلال کروں جس کو اللہ نے حرام کیا ہو یا وہ چیز حرام کروں جس کو اس نے حلال کیا ہو۔‘‘ ۵؎ 2۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جابر بن زید رضی اللہ عنہ (م ۹۳ھ)سے کہا تھا کہ ’’تم فقہائے بصرہ میں سے ہو پس قرآن ناطق یا سنت ماضیہ سے ہی فتویٰ دینا اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خود بھی ہلاک ہوگے اور لوگوں کو بھی ہلاک کرو گے۔‘‘۶؎ 3۔ ابونصر رحمہ اللہ (م ۹۴ھ)نے حسن بصری رحمہ اللہ (م ۱۱۰ھ)کو نصیحت کی تھی کہ ’’تم اپنی رائے سے فتویٰ دیتے ہو، پس آئندہ بجز قرآن و حدیث کے اپنی رائے نہ دینا۔‘‘۷؎ 4۔ اِمام شعبی رحمہ اللہ (م ۱۰۳ھ)نے فرمایا تھا:’’یہ علماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بیان کریں اس پر عمل کرو اور جو کچھ اپنی رائے سے کہیں اس کو پاخانہ میں پھینک دو۔‘‘ ۸؎ 5۔ میمون بن مہران رحمہ اللہ (م ۱۱۷ھ)سے منقول ہے کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ پیش آتا اور قرآن و سنت سے وہ اس کو حل نہ کرپاتے تو معتمد اور نیک لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ لیتے اور جس امر پر سب اتفاق رائے کرتے اس کے موافق فیصلہ کردیتے تھے۔‘‘۹؎ 6۔ قاضی شریح رحمہ اللہ (م ۷۸ھ)سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو تحریر کیا تھا کہ جب کوئی مسئلہ درپیش ہو اور اس کا حکم تم قرآن میں نہ پاؤ تو دو امروں میں سے جس کو چاہو اختیار کرلو۔ اگر اپنی رائے سے اجتہاد کرنا چاہو تو اجتہاد کرنا اور اجتہاد کرنے میں تاخیر کرنا چاہو تو تاخیر کرنا اور میں تمہارے لئے تاخیر ہی بہتر سمجھتا ہوں ۔۱۰؎ 7۔ عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ بھی یونہی کہا کرتے تھے، جیسے قاضی شریح رحمہ اللہ (م ۷۸ھ)کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا تھا۔۱۱؎ 8۔ عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ ہیسے منقول ہے کہ’’ ہم پر ایسا زمانہ گزرا ہے کہ ہم کسی مسئلہ میں فتویٰ نہ دیتے تھے اور نہ ہم فتویٰ دینے کے قابل تھے اور خدا نے مقدر کیا تھا کہ ہم کو اس درجے تک پہنچا دیا جس کو تم دیکھتے ہو۔‘‘۱۲؎ 9۔ امام قتادہ رحمہ اللہ (م ۱۱۸ھ)سے مروی ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ (م ۱۱۰ھ)نے ایک شخص کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تواس شخص نے کہا کہ ’’فلاں شخص تو ایسا ایسا کہتا ہے‘‘ اِمام ابن سیرین رحمہ اللہ (م ۱۱۰ھ) نے نہایت ناراضگی سے فرمایا: ’’میں تم |