Maktaba Wahhabi

265 - 432
(محدثین کرام)‘ اور’ اہل فقہ(فقہاء عظام)‘ کے لغوی معنی میں موجود تھے۔ ان کی نوعیت بعدکے زمانوں میں باقاعدہ اس طرح دو متحارب گروپوں کی نہ تھی جس کا عملی نمونہ آج تک اُمت میں نظر آرہا ہے۔ مزید برآں ابتداء میں یہ دونوں گروہ ہی فقہ وحدیث کے جامع لوگوں کے تھے او ر ان میں سے کوئی گروہ بھی کسی علم کی اہمیت کا انکاری نہ تھا، البتہ جس مسئلہ کی بنیاد پر بعد ازاں یہ اختلاف حدیث وفقہ کی کشمکش تک پھیل گیا اس کے اسباب وہ دیگر اُمور تھے، جن کا ذکر اوپر گذرا۔ بنابریں کہا جاسکتا ہے کہ اہل الحدیث اور اہل الرائے فقہاء رحمہم اللہ کے دو ایسے گروہ تھے جن میں اس موضوع پر شدید اختلاف پیدا ہوا کہ فقہ کی دین میں حیثیت کیا ہے ؟ فریقین کے نمائندہ افراد اہل الحدیث رحمہم اللہ کے نمائندہ افراد میں اِمام سعید بن مسیب رحمہ اللہ (م ۹۴ھ)اور ان کے تلامذہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)، اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ) ، اِمام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ)، اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ)، اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ)وغیرہ تمام مشہور فقہائے محدثین آتے ہیں ،جبکہ اہل الرائے رحمہم اللہ کے نمائندہ افراد میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (م ۹۶ھ) اور ان کے تلامذہ حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ (م ۱۲۰ھ)، اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)، قاضی ابویوسف رحمہ اللہ (م ۱۸۲ھ)، اِمام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ (م ۱۸۹ھ) اور اِمام زفر رحمہ اللہ (م ۱۵۸ھ) وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔۱؎ البتہ چونکہ یہ دونوں مکاتب فکر ایک ہی زمانہ میں برسرپیکار رہے ہیں اور ان کے تلامذہ کا آپس میں افادۂ علمی جاری رہا اس لئے دونوں لڑی میں آنے والے فقہاء رحمہم اللہ ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے رہے، چنانچہ مشہور محدث عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ھ)جن کا شمار فقہائے اہل الحدیث میں ہوتا ہے، انہوں علم فقہ کی تحصیل اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) سے براہ راست کی۲؎ اوراِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ) کا قاضی ابویوسف رحمہ اللہ (م ۱۸۲ھ)سے برابر علمی استفادہ جاری رہا ۔۳؎ جبکہ دوسری طرف اِمام محمد رحمہ اللہ (م۱۸۹ھ) نے حدیث کا علم اِمام المحدثین اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) سے حاصل کیا۴؎ اور ان کی ’موطا اِمام محمد‘ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) ہی سے ان کے فیوضات پر مشتمل ہے۔ بنیادی نکتۂ اختلاف اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین رونما ہونے والے اختلاف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اجتہاد وفقہ شریعت اسلامیہ کی مستقل تعبیر کا نا م ہے یا یہ شریعت کی نئے پیش آمدہ مسائل پر محض وقتی انطباق کا نام ہے؟ فقہائے اہل الحدیث کا موقف یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے شریعت کی جو تعبیر فرمادی ہے اس کے بعد قیامت تک کسی نئی تعبیر کی مزید کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور یہی تاقیامت شریعت کی حتمی وابدی تعبیر ہے، کیونکہ ختم نبوت کا خاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم دین وشریعت کی تمام تر تفاصیل کو جب تک محکم اور مفصل انداز میں امت تک پہنچا نہ دیں تب تک آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا فرض منصبی ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی آپ اس دنیا سے رحلت فرما سکتے ہیں ۔ فقہائے اہل الحدیث کا کہنا ہے کہ جہاں تک فقہ و اجتہاد کا تعلق ہے تو یہ صرف جدید حالات پر شریعت کے انطباق (Application) کا نام ہے، تعبیر دین (Interpertation) کا نام نہیں علم فقہ کو شریعت کی تعبیر کہا بھی کیونکر جا سکتا ہے، جبکہ یہ نہ ابدی ہوتی ہے اور نہ ہی حتمی! اس کے برعکس فقہائے اہل الرائے کا موقف یہ ہے کہ جس طرح قرآن کی تعبیر کی ضرورت ہے اور اس کو پورا کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جن کی پیش کردہ تعبیرحدیث و سنت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، اسی طرح وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رہتے زمانوں تک تعبیر دین کی موجود ضرورت کو پورا کرنے کا کام فقہاء کرام سرانجام دیتے ہیں ۔ لہٰذا جس طرح سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter