Maktaba Wahhabi

264 - 432
پس منظر وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے مختلف بلادو امصار میں پھیل گئے اور جس صحابی نے جس جگہ کو اپنا مسکن بنا لیا اسی جگہ ان کے گردتشنگان علوم نبوت نے ڈیرے ڈال لیے اور یوں وہاں ایک مستقل حلقہ درس کی بنیاد پڑ گئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی مابعد ازمنہ کے لوگوں کی طرح ذوق اور صلاحیتیں مختلف تھیں ۔ تفسیر، قراء ات، وراثت ، فقہ او رحدیث کے مختلف شعبوں کے اعتبار سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بھی مختلف طبقات تھے۔ اپنے ان اذواق کے اعتبار سے بعد ازاں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مکتبہ ہا ئے فکر بھی مختلف بنے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن جن علاقوں میں پہنچے ان کے ذوق کے مطابق وہ وہ علاقے بھی اپنے ذوق علم میں دوسرے ممتاز ہوتے گئے۔ مزید برآں یہ چونکہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اور ابلاغ عامہ کا کوئی خاطر خواہ انتظام بھی نہ تھا اور نہ ہی ابھی تک احادیث کو یک جا مدون کیا گیا تھا کہ ذخیرہ احادیث کا تمام مجموعہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم میں ہوتا۔ اس لیے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جو ذوق حدیث اور جمع حدیث میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے، حدیث کی معلومات کے سلسلہ میں انکا حد علم بھی دیگر سے مختلف تھا اور لوگ علم حدیث کے اکتساب کے لیے بھی انہی حضرات کی طرف رجوع کرتے۔ عمومی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کوفہ اور بصرہ کے علاقوں میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذوق علم زیادہ پھیلا جبکہ مدینہ منورہ میں عام طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ ہی زیادہ تعداد میں موجود رہے۔ اس پہلو سے یہاں احادیث کی معلومات بھی دیگر شہروں کی بہ نسبت زیادہ موجود تھیں ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین عظام رحمہم اللہ کا دور شروع ہوگیا، لیکن علم کی کیفیت وہی رہی کہ ہر استاد اپنی معلوم احادیث کو اپنے تلامذہ کے گوش گذار کر دیتا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ اس سے آخر کار اصحاب وتلامذہ کا دائرہ اثر روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ بعد میں جب اسلامی سلطنت کا دائرہ کار وسیع ہوا اور لوگوں کو شرعی راہنمائی حاصل کرنے کے لیے احادیث نبویہ کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے علاقوں میں میسر علماء کرام کی طرف رجوع کیا، جنہوں نے اپنے علم کی حد تک معلوم احادیث کی روشنی میں اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے اخذ شدہ مختلف اذواق کے مطابق عوام الناس کو شرعی احکام کی راہنمائی دینا شروع کردی، لیکن چونکہ حلقہ ہائے درس مختلف تھے اور ہر استاد کا احادیث نبویہ سے متعلقہ مطالعہ محدود تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنی اپنی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے احادیث نبویہ سے اخذ ہونے والے فہم وتدبر میں اختلاف کا پایا جانا ایک بالکل فطری عمل تھا۔ اختلاف کا آغاز ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ ذوق وفہم کے اختلاف کی وجہ سے ہر صاحب علم نے حدیث وفقہ میں سے کسی خاص میدان کی طرف اپنا رجحان ظاہر کیا اور اپنی تمام تر خداد صلاحیتوں کے ساتھ اپنی پوری توجہ اسی جانب مبذول کردی، ابتدا میں عہد نبوی کے قریب تر ہونے کی وجہ سے ذوق وفہم کا یہ اختلاف دبا رہا، لیکن بُعد زمانہ اور مرور ایام کی وجہ سے لوگوں کے ایمان میں کمی آنا شروع ہوگئی اور علمی حلقوں میں تعصب کی فضا دن بہ دن بڑھتی گئی۔ حدیث وفقہ کے ماہرین اساتذہ کے اصحاب فکر او رتلامذہ ٔ خاص کے مابین حدیث وفقہ کے اس فطری اختلاف نے پہلی دفعہ تابعین رحمہم اللہ کے دور میں باقاعدہ دو مختلف مکتبہ ہائے فکر کی شکل اختیار کرلی، جنہیں ان کے ذوق ہائے فکر کے اعتبار سے ’اہل الحدیث‘ اور’ اہل الرائے‘ کے ناموں سے موسوم کیا جانے لگا، لیکن واضح رہے کہ اس وقت یہ اسماء محض ’اہل حدیث
Flag Counter