کے منشاء ومدعا سے انحراف کریں ۔ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)نے بھی اپنے قول میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں : ’’جو کوئی قول میں نے کہا ہے یا اصل مقرر کی ہے اور میرے قول کے خلاف حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قول مل جائے تو میرا قول وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔‘‘ ۵۰؎ ٭ اِمام خطابی رحمہ اللہ (م ۳۸۸ھ) اپنی کتاب ’معالم السنن‘ میں کہتے ہیں : ’’میں نے اہل علم کو اپنے زمانے میں دیکھا کہ دو جماعتیں اکٹھی ہوئی اور دو فرقوں میں منقسم ہوگئیں ۔ اول ’اصحاب حدیث ‘تھے اور دوسرے ’ارباب فکرودانش‘ ،جبکہ دونوں میں سے ہر ایک اپنی ضرورت میں دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا اور اپنا مقصود حاصل کرنے میں دوسرے بے نیاز وبے پرواہ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ’ احادیث وسنن‘ اساس کی جگہ پرہیں اور’ فقہ وتدبر‘ اس کی عمارت ہیں ، جو اساس پر شاخ کی حیثیت رکھتی ہیں ، اور جو عمارت کسی خاص بنیاد پر نہیں ہوتی وہ منہدم ہوجاتی ہے اور جو بنیاد عمارت سے خالی ہوتی ہے ،وہ بیابان اور ویران ہی ہوتی ہے۔‘‘۵۱؎ خلاصۂ کلام خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دونوں مکتبہ ہائے فکر، جو کہ مرتبہ و منزلت میں بہت قریب ہیں اور اپنی ضرورتوں میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ، آپس میں ایک دوسرے کی اعانت اور مدد کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ طبقہ اہل الحدیث اور اہل الاثر کا حال یہ ہے کہ ان میں اکثر کی کوشش روایتوں کو بیان کرنا، سندوں کو اکٹھا کرنا اور حدیثوں کے مجموعے مرتب کرنے تک محدود ہے۔ یہ لوگ نہ منشائے حدیث کا خیال رکھتے ہیں اور نہ معنی ٔ حدیث کو سمجھتے ہیں اور بعض اوقات فقہاء رحمہم اللہ پر عیب لگا دیتے ہیں ، نیز ان پر مخالفت سنت کا الزام لگاتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ جس قدر علم فقہاء کرام کو دیا گیا ہے، وہ خود اس سے قاصر ہیں ۔ دوسری طرف طبقہ اہل فقہ و نظر حدیث وتحقیق حدیث کی طرف کم ہی رجحان رکھتے ہیں اور جن مذاہب کے وہ پابند ہیں ، حدیث کریمہ ان کے موافق ہو تو قبول کرتے ہیں ورنہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔۵۲؎ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں طبقے اپنے رویوں میں اعتدال پیدا کریں اور اپنے اپنے میدانوں میں ایک دوسرے کو فائدہ دیں ۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ فقہ اور حدیث کو دو مختلف علوم وفنون سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو باہم گڈ مڈ نہ کیا جائے،جیسا کہ اس باب کی پہلی فصل میں گذر چکا ہے ۔بنا بریں علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) کا یہ قول جو انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)کی بطور ’اِمام اہل الرائے‘ شہرت کے اسباب کے ضمن میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس شہرت کی ایک اوروجہ یہ ہوئی کہ عام محدثین کرام رحمہم اللہ حدیث و روایت میں درایت سے بالکل کام نہ لیتے تھے اور اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ) نے اس کی اتباع کی اور اس کے اصول و قواعد منضبط کیے۔انہوں نے بہت سی حدیثیں اس بنا پر قبول نہ کیں کہ اصول درایت کے موافق ثابت نہ تھیں ۔ اس لیے اس لقب کو زیادہ شہرت ہوئی کیونکہ درایت اور رائے مترادف سے الفاظ ہیں ۔‘‘۵۳؎ کسی طور پر صحیح نہیں کیوں کہ اس سے بداہۃً واضح ہو رہا ہے کہ مولانا نے درایتی نقد کی بنیاد فقہ اور اصول فقہ (رائے اور فہم) کو بنایا ہے،حالانکہ علم فقہ کا موضوع نقد روایت نہیں بلکہ استنباط روایت ہے۔ نقد روایت فن حدیث کا موضوع ہے۔درایت حدیث اور درایت اجتہاد دو مختلف فنون سے تعلق رکھتی ہیں ،جیسا کہ اس حوالے تفصیلی بحث پہلے باب کی تیسری فصل میں گذر چکی ہے۔ |