کارنامہ سرانجام دیا ہے، عام محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ ٭ علامہ طاہر بن صالح الجزائری رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ھ) فرماتے ہیں : إن المحدثین قلّما یحکمون علی الحدیث بالاضطراب إذا کان الاختلاف فیہ واقعا فی نفس المتن لأن ذلک لیس من شأنہم من جہۃ کونہم محدثین وإنما ہو من شأن المجتہدین۵۴؎ ’’حدیث نبوی پر محدثین کرام رحمہم اللہ اس صورت میں اضطراب کا حکم بہت کم لگاتے ہیں جبکہ نفس متن میں اختلاف ہو، کیونکہ بحیثیت محدث یہ ان کا کام نہیں ، بلکہ یہ مجتہدین کا کام ہے۔‘‘ اس کے بالمقابل محدثین کرام رحمہم اللہ کا کام’ علم حدیث‘ میں انتہائی عالی شان ہے، او رعام فقہاء رحمہم اللہ کی علمی جمع پونجی اس میں محدوداور ان کا کام انتہائی ناقص ہے۔ ٭ اس ضمن میں ڈاکٹر مرتضیٰ زین احمد، اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ) سے نقل کرتے ہیں: قال ابن الجوزی: رأیت بضاعۃ أکبر الفقہاء فی الحدیث مزجاۃ یعول أکثرھم علی أحادیث لاتصح و یعرض عن الصحاح و یقلد بعضہم بعضا فیما ینقل۵۵؎ ’’اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ حدیث کے میدان میں اکثر فقہاء کی علمی پونجی بالکل ناقص ہے، اکثر فقہاء کی عادت ہے کہ وہ صحیح احادیث کو چھوڑ کر غیر ثابت روایات پر اعتماد کرلیتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتیں اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی وہ ان ضعیف روایات کونقل کرتے جاتے ہیں ۔‘‘ نوٹ: ’’فقہ اور حدیث دو مختلف فنون علم ہیں ‘‘ اس موضوع پر تفصیلی بحث پہلے باب کی فصل ثالث میں ’مختلف علوم میں درایت کا استعمال ‘ کے زیر عنوان بھی گذر چکی ہے جس میں درایت حدیث اور درایت اجتہادی کی تعریفات،دونوں کے موضوع کا فرق اور دونوں درایات کے باہم اختلاط کے سلسلہ میں اہل علم کے مغالطات کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ ........٭٭٭........ |