Maktaba Wahhabi

258 - 432
کرتے ہیں ۔ صحیح بخاری کا قاری تراجم ابواب کے ضمن میں اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) کے فقہی مسائل سے متعلق استنباطات اور استخراجات کو پڑھ کر یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، کہ مذاہب اربعہ پر لکھی جانے والی فقہ کی کتابوں کے انداز پر اگر اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ)بھی فقہ الحدیث پر ایک مستقل کتاب تصنیف کردیتے، تو اسے امت مسلمہ میں قبول عام حاصل ہوتا، کیونکہ آپ اس میں فقہ الرائے کی بجائے فقہ الحدیث کا اہتمام کرتے، جیسا کہ انہوں نے جامع بخاری کے تراجم ابواب کے ضمن میں کیاہے۔ محدثین کی فقاہت کے پیش نظر مخالفین کا انہیں طنزا صیدلانی (دوا فروش) کا لقب دینا اور اہل فقہ کوبطور توصیف اطباء (علاج کنندہ) قرار دے کر دونوں میں خط امتیاز کھینچ دینا لا یعنی اور بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ ویسے بھی عطار اور طبیب میں افضل اور غیر افضل کی بحث عین اسی طرح فضول ہے جس طرح کے ڈاکٹر اور انجینئر میں یہ بحث لا یعنی ہے، کیونکہ یہ مختلف میادین ہیں اور ہر میدان کا آدمی دوسرے میدان کے آدمی سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہوسکتا، چنانچہ ان سارے فنون کی ہی اپنے اپنے میدان میں بالادستی ہے۔ ٭ فقہ وحدیث کی باہمی کشمکش کے حوالے سے نمایاں موضوع حدیث پر قیاس کی فوقیت کا مسئلہ ہے۔اس سلسلہ میں عام معروف یہ ہے کہ یہ علمائے احناف کا مسلک ہے کہ وہ خبر کے مقابلے قیا س کو ترجیح دیتے ہیں ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔یہ متاخرین فقہائے احناف رحمہم اللہ کی ایک محدود جماعت کا موقف ہے، ورنہ جہاں تک اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)اور جمہور فقہائے احناف رحمہم اللہ کا تعلق ہے، توان کے نقطہ نظر کے مطابق ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)لکھتے ہیں : وأصحاب أبی حنیفۃ مجمعون علی أن ضعیف الحدیث مقدم علی القیاس والرأی و علی ذلک بنی مذھبہ۵۲؎ ’’اصحاب ابی حنیفہ رحمہ اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس اور رائے پر مقدم کیا جائے گا اور اسی اصول پر مذہب حنفی کی بنیاد ہے۔‘‘ خلاصہ بحث المختصر محدثین کرام رحمہم اللہ کا موضوع واقعہ (روایت) اور تحقیق واقعہ( تحقیق روایت) ہے، جبکہ تاویل حدیث اورحدیث سے مسائل کا استخراج فقہاء کرام رحمہم اللہ کا موضوع ہیں ۔تحقیق روایت کے لیے محدثین رحمہم اللہ کاانداز اِسناد ومتن دونوں کی تحقیق کرنا ہے، جبکہ تاویل حدیث کے لیے فقہاء رحمہم اللہ معمول بہ روایات ِصحیحہ یعنی قابل استدلال صحیح روایات سامنے رکھتے ہیں اور غیر معمول بہ روایات صحیحہ پر توقف کرتے ہیں ۔اس لیے روایات صحیحہ معمول بہا اور روایات صحیحہ غیرمعمول بہا فن حدیث کے بجائے فن فقہ کا موضوع ہے، کیونکہ تحقیق کے اعتبار سے تو وہ صحیح قرار پاچکی ہوتی ہیں ، البتہ نسخ یا ترجیح یا اضطراب کی وجہ سے اس سے استدلال کیا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر عمل۔ چنانچہ مختلف الحدیث یا مشکل الاثارکی مباحث بنیادی طورپر علم تاویل الحدیث کا موضوع ہیں ، فن حدیث کا موضوع نہیں ۔ اسی وجہ سے مختلف الادلہ، نسخ، ترجیح کے ضوابط وغیرہ عنوانات سے مستقل طور پر علم اصول فقہ بحث کرتا ہے۔۵۳؎ فن محدثین میں یہ موضوعات صرف بطور خبر سامنے آتے ہیں ۔ اسی لیے اس موضوع پر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے جس قدر شاندار
Flag Counter