خدمات سے مستفید ہوتے رہیں تو امت کے دو بڑے مکاتب فکر ( اہل الحدیث، اہل الرائے) کے درمیان صدیوں سے جاری رہنے والی کشمکش کاسد باب کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس دونوں علوم کے مابین موجود قوی تعلق کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ علم حدیث اور علم فقہ دونوں سے تعلق مساویانہ ہونا چاہیے، دونوں علوم کو ان کا مکمل حق دینا چاہیے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ ہر دو علوم سے مکمل بے نیاز نہ ہوا جائے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے خود برصغیر میں موجود زمانہ قدیم سے چلی آنے والی اس کشمکش کا علاج اپنی وصیتوں میں یہی پیش کیا ہے کہ صرف فن فقہ یا صرف فن حدیث پر قانع نہ ہوا جائے، بلکہ دونوں فنون کا حامل بنتے ہوئے ’فقہائے محدثین‘ کی صف میں کھڑا ہوا جائے۔(تفہیمات از شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ): ۲؍۲۴۰ بحوالہ تحریک آزادی فکر از مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ (م ۱۳۸۷ھ): ص۲۳،۲۴)شاہ صاحب رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق جب ایک فقیہ علم الروایہ کا ماہر نہیں ہوتا توعموما اس پر ’رائے‘ غالب ہوجاتی ہے، اسی طرح جب ایک محدث ہر دم علم الحدیث میں مشغول رہے اور فہم واستنباط سے کوئی علاقہ نہ رکھے تو تفقّہ کو موضوع نہ بنانے کی وجہ سے جلد یا بدیر ’ظاہریت‘غالب ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے امت کے کبار ائمہ عموما دونوں میدانوں میں طاق ہوتے تھے۔ جیسے اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ)، اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)اور اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) وغیرہ۔ ٭ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’حدیث سے تعلق رکھنے والوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1۔ جو حدیث کی صرف نقل وروایت میں زیادہ مشہور ہیں ۔ 2۔ جو حدیث کی نقد ودرایت دونوں میں مشہور ہیں ۔ 3۔ جو حدیث کی روایت اور درایت دونوں میں مشہور ہیں ۔ پہلے طبقہ میں وہ محدثین ہیں جو فقہ میں ممتاز نہ تھے۔ دوسرے میں وہ فقہاء ہیں جو حدیث میں ممتاز نہ تھے۔ اور تیسرے میں وہ اہل علم ہیں جو حدیث وفقہ دونوں میں ممتاز تھے۔ ‘‘۵۰؎ ٭ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ)نے اپنی متعدد کتب حجۃ اللّٰہ البالغہ،عقد الجید فی الاجتہاد والتقلید اور اپنے وصیت نامہ وغیرہ میں تیسرے طبقہ کے حوالے سے واضح فرمایا ہے کہ فقہ یا حدیث کی باہمی کشاکشی کے حوالے سے حل آج بھی یہی ہے کہ فقہ اور حدیث کو باہمی کشمکش سے نکال ایک دوسرے سے پیوستہ کیا جائے تو آج بھی’ فقہائے محدثین‘ کا رویہ پیدا ہو سکتا ہے۔۵۱؎ ٭ بعد ازاں شاہ صاحب رحمہ اللہ کے اسی فکر پر مشتمل ایک کتاب شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ (م ۱۳۸۷ھ)نے ’تحریک آزادی فکر‘ کے نام سے لکھی ہے۔ اس سلسلہ میں اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ جیساکہ ابھی اوپر علامہ تقی امینی کے حوالے سے گذرا کہ محدثین کے بھی طبقات ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اگرچہ عام محدثین فقاہت کی صفت سے متصف نہ تھے اوربے شمار فقہاء بھی علم حدیث میں مہارت نہیں رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اکابر علمائے امت محدثانہ اور مجتہدانہ دونوں قسم کی بصیرتوں کے حامل ہوتے تھے، جیساکہ صحاح ستہ کے مصنفین رحمہم اللہ اور حدیثیں جمع کرنے والے دیگر مصنفین رحمہم اللہ کے اپنی تصانیف میں تراجم ابواب شاہد عدل ہیں کہ وہ دونوں فنون کے شاہ سوار تھے۔ خاص کر اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) کو فن حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ الحدیث میں بھی کامل دسترس حاصل تھی۔ اسی بناء پر وہ اپنی صحیح میں ایک ایک حدیث سے مختلف مسائل فقہیہ کا استنباط |