Maktaba Wahhabi

256 - 432
فإن قلت فما بالھم أوردوا فی تصانیفہم الأحادیث الموضوعۃ مع جلا لتہم وبناھتہم ولم لم ینقدوا الأسانید مع سعۃ علمہم؟ قلت: لم یوردوا ما أوردو امع العلم بکونہ موضوعا بل ظنوہ مرویا و أحالوانقد الاسانید علی نقاد الحدیث لکونہم أغنوھم عن الکشف الحیث؛ إذلیس من وظیفتہم البحث عن کیفیۃ روایۃ الأخبار إنما ھومن وظیفۃ حملۃ الأثار فلکل مقام مقال ولکل فن رجال۴۴؎ ’’اگر کہاجائے کہ ان عظیم اور مشہور فقہاء رحمہم اللہ نے اپنی تصنیفات میں اسانید کی تحقیق کے لئے بغیر موضوع روایات کو کیسے نقل کر دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ایسی روایات کوجان بوجھ کر نقل نہیں کیا، بلکہ وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ یہ روایات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں اور انہوں نے ان کی اسانید کی تحقیق کو حدیث کے ماہر محدثین کرام رحمہم اللہ پر چھوڑ دیا تھا، کیونکہ وہ (محدثین کرام رحمہم اللہ ) ان کی تحقیق سے فارغ ہوچکے تھے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ احادیث کی تحقیق کرنا فقہاء کرام رحمہم اللہ کا کام بھی نہیں ہے، بلکہ یہ کام محدثین کرام رحمہم اللہ کا ہے اور ہرمقام کے مناسب حال بات کی جاتی ہے، مناسب بات یہی ہے کہ ہر فن کے متعلقہ امر کو متعلقہ فن کے ماہرین پر چھوڑا جائے۔‘‘ ٭ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’حدیث کی تنقید (ضعف اور صحت) سے بحث کرنا محدثین کا کام ہے۔ مجتہد کے لئے حدیث کا جاننا ضروری ہے، لیکن بحیثیت مجتہد اس کا کام استنباط مسائل ہے اور تنقید حدیث میں وہ محدثین کی خدمت کی وجہ سے بے فکر ہوسکتا ہے۔‘‘۴۵؎ ٭ صاحب تلویح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : البحث عن أحوال الرواۃ فی زماننا ھذا کالمتعذر بطول المدۃ وکثرۃ الوسائط فالأولی الاکتفاء بتعدیل الأئمۃ الموثوق بھم فی علم الحدیث کالبخاری والمسلم والبغوی الصنعانی وغیرھم من أئمۃ الحدیث ۴۶؎ ’’ہمارے زمانے میں راویان حدیث کے حالات سے بحث کرنا طویل مدت کی وجہ سے گویا مشکل ہے۔ پس بہتر یہ ہے کہ ائمہ حدیث جوفن حدیث میں معتبر ہیں انہی کی تنقید اور تعدیل پر کفایت کی جائے جیسے امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ)، امام مسلم رحمہ اللہ (م۲۶۱ھ)اور امام بغوی رحمہ اللہ وغیرہ۔‘‘ یہ کہہ کر مجتہد کا من حیث المجتہد فن حدیث میں دخل اتنا بتلاتے ہیں : لا یخفی أن المراد معرفۃ متن الحدیث بمعانیہ لغۃ وشرعا وباقسامہ من الخاص والعام وغیرھا۴۷؎ ’’الفاظ حدیث کواس کے معانی کے ساتھ جاننا اور اس کی اقسام، خاص، عام وغیرہ کو معلوم کرنا (مجتہد کا فرض ہے)۔‘‘ ٭ اِمام اعمش رحمہ اللہ (م ۱۴۸ھ)نے فقہ اور حدیث کے دائرہ فنون کا تعین کرتے ہوئے کیا ہی اچھی بات کی ہے۔ ان کا یہ قول امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: أنتم الأطباء ونحن الصیاد لہ۴۸؎ ’’اے فقہاء کرام !آپ طبیب ہیں اور ہم (محدثین) عطار ہیں ۔‘‘ ٭ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اِمام اعمش رحمہ اللہ (م ۱۴۸ھ) کے مذکورہ قول پر انتہائی متوازن تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’محدثین رحمہم اللہ کا کام اچھی دوائیں جمع کرنا اور فقہاء رحمہم اللہ کا کام دواؤں کی چانچ پڑتال کرکے ان کو بر محل منطبق کرنا ہے۔‘‘ ۴۹؎ دونوں علوم میں پائے جانے والے واضح فرق کے باوجود دونوں فنون میں چولی دامن کا ساتھ بھی ہے اور دونوں فنون کے ماہرین ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ۔ اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں رواۃ میں سے نہ سب فقہا ہیں اور نہ سب فقہا فن حدیث کے ماہر! چنانچہ اگر یہ دونوں طبقات اپنے اپنے میدان میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی
Flag Counter