Maktaba Wahhabi

253 - 432
’’نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف جو بھی منسوب کیا جائے ، قول ، فعل ، تقریر یا صفت حتی کہ بیداری اور نیند کی حالت کی حرکات وسکنات بھی ’حدیث‘ کہلاتی ہیں ۔ ‘‘ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م فاروقی)کے بقول تعریف حدیث میں محدثین کرام رحمہم اللہ نے سیرت نبوی کو بھی داخل کر دیا ہے،حالانکہ سیرت اصولیوں کے ہاں احکام ومسائل کا ماخذ نہیں ہوتی۔ وہ فرماتے ہیں : ’’علم حدیث کا مقصود ایسی چیز کی طلب ہے جس سے دینی اُمور پر استدلال کیا جاتا ہو اور یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل یا تقریر ہے ۔ حدیث میں قبل از نبوت سیرت سے متعلق بعض اخبار بھی داخل ہیں مثلاً غار ِحراء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت نشینی ، حسن سیرت ، کرائم اخلاق ، محاسن افعال،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول :’’ کلا واللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ إنک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتعین علی نوئب الحق‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امی ہونا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدق وامانت کے لیے معروف ہونا یا اسی طرح کی وہ تمام اشیاء جو آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے احوال ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور صداقت پر دلالت کرتی ہوں ۔ ‘‘۲۸؎ گویا محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں تعریف ِحدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ خَلقی اور اوصافِ خُلقی بھی شامل ہیں ، کیونکہ محدثین کرام رحمہم اللہ کا موضوع محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاہدات کو بذریعہ خبر روایت کر دینا ہے، لیکن چونکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ کا یہ موضوع نہیں ، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی زندگی کے صرف ان امور کو سامنے رکھ کر استخراج مسائل کرتے ہیں جن سے استدلال کرنا صحیح ہو، اس لیے انہوں حدیث کی مذکورہ تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو شامل نہیں فرمایا کیونکہ ان سے شرعی امور میں استدلال صحیح نہیں ۔۲۹؎ علامہ عجاج الخطیب فقہاء کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ کی تعریفات حدیث کا تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک ’سنت‘ ہر اس قول ، فعل ، تقریر ، صفت خَلقیہ وخُلقیہ اورسیرت (خواہ بعثت سے قبل کی ہو یا بعد کی) کا نام ہے جو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے ماثور ہے۔ فقہاء عظام رحمہم اللہ کے نزدیک ’سنت‘ قرآن کریم کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے صادر ہونے والا ہر قول، فعل اور تقریر ہے ۔ ‘‘۳۰؎ 9۔ طبقات رجال اور کتب مصادر کے اعتبار سے فرق فن فقہ اور فن حدیث میں ایک نمایاں فرق ان کے طبقات رجال کا بھی ہے۔ علمائے امت نے تمام علوم کے ماہرین کے حالات زندگی کو مختلف عناوین کے تحت محفوظ فرمایا ہے۔ چنانچہ جو شخص فن فقہ سے متعلقہ ماہرین افراد کے حالات معلوم کرنا چاہے اسے طبقات الفقہاء پر مشتمل کتب سیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اورجو شخص فن حدیث کے ماہرین کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے اسے اسماء الرجال پر مشتمل ان کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے جن میں طبقات المحدثین کو بطریق تمام بیان کردیا گیا ہے۔حدیث وفقہ کے فنون پرسطحی نظر رکھنے والا آدمی بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ یہ دونوں دو مستقل فنون ہیں اور طبقات المحدثین میں فقہا ء کرام رحمہم اللہ کو تلاش کرنا یا طبقات الفقہاء میں محدثین عظام رحمہم اللہ کے اسماء کو دیکھنا وقت کے ضیاع کے ماسوا کچھ نہیں ۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں فنون کی کتب مصادر ومراجع بالکل مختلف ہیں ۔ مثلا مصادر حدیث میں صحاح ستہ وغیرہ اور مصادر اصول حدیث میں الکفایۃ اور مقدمۃ ابن الصلاح وغیرہ جیسی کتب شامل ہیں ۔ جبکہ مصادر فقہ میں ابن رشد کی بدایۃ المجتہد اور ابن قدامہ کی المغنی وغیرہ اور مصادر اصول فقہ میں الرسالۃ للشافعی اور الإحکام فی أصول الأحکام للآمدی
Flag Counter