وغیرہ جیسی کتب شامل ہیں ۔ المختصر فن فقہ میں تحقیق حدیث کے اصولوں کو تلاش کرنا یا فن حدیث میں تفہّم اور تفقّہ کے اصولوں تالاش کرناانتہائی حماقت پر مبنی بات ہے۔ 10۔ ماہرین فن کے اعتبار سے فرق علم فقہ اور علم حدیث میں فرق کو جاننے کے لیے ان علوم کے ماہرین کے اسماء کا اختلاف بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ فن حدیث کے ماہر کو محدث اور فن فقہ کے ماہر کو مجتہد کہا جاتا ہے۔ گویا محدث اور مجتہد میں فرق ہے۔ محدث کی تعریف یہ ہے جو حدیث کی فقط روایت یا فقط درایت یا دونوں میں زندگی بھر مشغول رہے،۳۱؎ جبکہ مجتہد اس کو کہتے ہیں جو کہ قرآن وحدیث کے معانی اور اس کی مراد واضح کرنے کا عظیم کام سر انجام دے۔۳۲؎ تو دونوں کا میدان حدیث ہی ہے لیکن چونکہ منہج کا فرق ہے اس لئے مجتہد پر محدث اور محدث پر مجتہد کا اطلاق نہیں ہوتا، البتہ اگر وہ دونوں کام کرے تو دونوں القاب کا اطلاق اس پر ہوجاتا ہے۔ اور بہترین بات یہی ہے کہ انسان دونوں کا ہی ماہر ہو ، کیونکہ ان دونوں علوم پر عبور سے فقہ وحدیث کی جو کشمکش خوامخواہ بر صغیر پاک وہند میں ماضی قریب میں رہی اور جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں ، وہ ختم ہو جائے گی۔اسی لیے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (۱۱۷۶ھ)نے اپنے وصیت نامے میں اسی بات کو پسند کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ’’ میں اپنے جانشینوں کو فقہائے محدثین کے طریق کار کی نصیحت کرتاہوں ۔‘‘ 11۔ قبول و ردکے اعتبار سے فرق فن حدیث اورفن فقہ میں کسی حدیث کے قبول ورد کے اعتبار سے بھی واضح فرق پایا جاتا ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ایک مثال ’حدیث مرسل‘ کی ہے، جو کہ بالاتفاق محدثین رحمہم اللہ ضعیف ہوتی ہے،۳۳؎ البتہ آئمہ اربعہ سمیت جمہور فقہاء رحمہم اللہ کے ہاں اس سے مشروط یا غیر مشروط پر استدلال کیاجاسکتا ہے،۳۴؎ اس لیے فن فقہ میں ’حدیث مرسل‘ کو بطور استدلال قبول کیا جائے گا، لیکن فن حدیث میں استنادی اعتبار سے اس کے منقطع السند ہونے کی وجہ سے یہ روایت خبر مردود ہی میں شامل رہے گی۔ اس بات کی اور مثال یہ ہے کہ اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ) کے حوالے سے کتب اصول میں موجود ہے کہ فن فقہ میں وہ قیاس کے بالمقابل ضعیف حدیث کو بھی استدلال میں ترجیح دیتے تھے۔اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ) لکھتے ہیں: وأصحاب أبی حنیفۃ مجمعون علی أن ضعیف الحدیث مقدم علی القیاس والرأی و علی ذلک بنی مذھبہ۳۵؎ ’’اصحاب أبی حنیفہ رحمہ اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس اور رائے پر مقدم کیا جائے گا اور اسی اصول پر مذہب حنفی کی بنیاد ہے۔‘‘ لیکن فن حدیث میں کوئی اِمام یا محدث ایسا نہیں جو کہ دعوی کرے کہ ’قیاس ‘کے بالمقابل ضعیف روایت سے جب اِمام صاحب ضعیف حدیث سے استدلال کرتے ہیں تواسے ثبوت کے اعتبار سے صحیح بھی کہتے ہیں ۔ اسی طرح اجتہاد اور اجماع سے متعلقہ تمام ضعیف روایات سے فقہاء کرام رحمہم اللہ کا مسئلہ اجتہاد یا اجماع کو ثابت کرنے کا قطعی لازمہ نہیں ہے کہ محدثین عظام رحمہم اللہ کے ہاں اب یہ روایات بطور نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت قرار پا چکی ہیں ۔ فن فقہ اور فن حدیث میں قبول و رد کے اعتبار سے فرق کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ میں سے اِمام احمد رحمہ اللہ |