Maktaba Wahhabi

252 - 432
علمائے امت اس بات کو بالاتفاق قبول کرتے ہیں ۔۱۷؎ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اجتہاد سے متعلق معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی معروف روایت اوراجماع سے متعلق تمام مشہور روایات محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصولوں پر قطعی ضعیف ہیں ،۱۸؎ لیکن چونکہ ان روایات کا خلاصہ شریعت کے دیگر دلائل سے ثابت ہے۔ اس لیے تمام فقہاء رحمہم اللہ اور اصولی رحمہم اللہ ان روایات کو اپنی اصول فقہ کی کتب میں بڑے اہتمام سے پیش فرماتے ہیں اور ان سے اجماع اور اجتہاد کے ثبوت کو واضح کرتے ہیں ۔۱۹؎ 7۔ روایت کے قبو ل و عمل کا فرق فن حدیث اورفن فقہ میں ایک اساسی فرق روایت میں قبولیت اور عمل کے معیار کا بھی ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں قبول ورد کے اعتبار سے ایک روایت کی دو اقسام ہیں:خبر مقبول اور خبر مردود۔۲۰؎ جب ایک حدیث فن حدیث میں مقرر کردہ معیارات پرپورا اترتی ہے تو وہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں مقبول قرار پاتی ہے، جبکہ استدلال وعمل کے اعتبار سے اسی خبر مقبول کو مزید دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:۲۱؎ خبر مقبول کی پہلی قسم کو فقہاء کرام رحمہم اللہ معمول بہا مقبول روایت کا نام دیتے ہیں اور اس سے ان کی مراد ایسی روایت ہے جو قابل استدلال اور قابل عمل ہو۔ خبر مقبول کی دوسری قسم کا نام فقہاء رحمہم اللہ نے غیر معمول بہ مقبول روایت رکھا ہے اور اس سے ا ن کی مراد ایسی روایت ہے جوناقابل استدلال اور ناقابل عمل ہو۔۲۲؎ گویا محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں مقبول قرار پانے والی روایت علمائے استدلال کے ہاں غیر معمول بہ قرار دی جاسکتی ہے۔ جیساکہ کتب اصول فقہ میں موجود ہے کہ تعارض الادلہ کی ضمن میں جو روایات منسوخ ، مرجوح یا باہم ٹکراؤ کے باعث اضطرابی کیفیت پر باقی رہیں ، جسے علمائے فن متوقف علیہ روایت کا نام دیتے ہیں ، انہیں اصولیوں کے ہاں استدلال وعمل میں نہیں لایا سکتا۔۲۳؎ فن حدیث اور فن فقہ میں مذکورہ پہلو سے فرق کی ایک اور نوعیت یہ بھی ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں جو حدیث فن حدیث میں خبر مقبول کے لیے مقرر کردہ معیار پر پوری نہ اترے اسے وہ ضعیف کہتے ہیں ۔لیکن ضعیف روایت کو بعض فقہاء رحمہم اللہ استدلال میں قیاس کے بالمقابل مدارِ استدلال بناتے ہیں کہ روایت کے ضعیف ہونے کے باوجود اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہونے کا امکان تو ہے جب کہ قیاس میں تو یہ امکان صفر ہے۔۲۴؎ اگر ایک روایت محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں حدیث کے لیے مقرر معیار ثبوت پر تو پوری اترے، البتہ وہ معمول بہا نہ ہو تو محدثین کرام رحمہم اللہ تو اسے مقبول حدیث ہی میں شمار کرتے ہیں جبکہ فقہاء عظام رحمہم اللہ کے ہاں وہ ثابت ہونے کے باوجود عمل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں ہوتی۔ حاصل یہ ہے کہ مرجوح یا متوقف علیہ روایت محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ضعیف نہیں بلکہ صحیح ہوتی ہیں ، البتہ معمول اور قابل استدلال نہیں ہوتی۔۲۵؎ 8۔ تعریف ِحدیث کے اعتبار سے فرق فن روایت اور فن فقہ میں ’ تعریف حدیث‘ کے اعتبار سے بھی فرق پایا جاتا ہے۔ اصطلاح محدثین میں حدیث کی تعریف یہ ہے: ہو ما أضیف إلی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من قول أو فعل أوتقریر أوصفۃ خَلقیۃ وخُلقیۃ۲۶؎ بلکہ امام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ھ)نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ بیداری اور نیند کی حالت میں صادر ہونے والی حرکات وسکنات تک تعریف حدیث میں داخل ہیں ۔ فرماتے ہیں: ما أضیف إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قولا لہ أو فعلا أو تقریرا أو صفۃ حتی الحرکات والسکنات في الیقظۃ والمنام۲۷؎
Flag Counter