Maktaba Wahhabi

242 - 432
اکتفا کیا جائے، لیکن اگر ضرورت مند مال غنیمت سے حاصل کرتے وقت نھبۃ (لوٹ مار) کی شکل اختیار کرلیں تو اسے اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ)بھی جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ لو ٹ مار کے ذریعہ سے حاصل کرنے والا اپنی قوت کے بل بوتے پر ضرورت سے زیادہ حاصل کرتا ہے، بقدر ضرورت پر اکتفا نہیں کرتا۔ اس کی ممانعت کے بارے میں اِمام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فلا أری بأسا بما أکل من ذلک کلہ علیٰ وجہ المعروف ۴۶؎ ’’ دستور کے موافق ا س میں سے بقدر ضرورت کھانے میں میرے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ حدیث مذکور جسے مصالح مرسلہ کے خلاف بنانے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں بھی لوٹ مار کی شکل اختیار کی گئی تھی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہانڈیوں کو الٹنے کا حکم دیاتھا۔ اِمام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو باب ماجاء فی کراھیۃ النھبۃ کے تحت ذکرکیا ہے اور سنن ابی داؤد میں اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نھبۃ (لوٹ مار) کی وجہ سے ہی ان ہانڈیوں کوالٹنے کا حکم دیا تھا جس میں انسان حد اعتدال سے تجاوز کرجاتا ہے۔ ٭ سنن ابی داؤد میں اس حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں: خرجنا مع رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی سفر فأصاب الناس حاجۃ شدیدۃ وجھد وأصابوا غنما فانتھبوھا فإن قدرونا لتغلی إذجاء رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یمشی علی قوسہ فأکفأ قدور نابقوسہ ثم جعل یرمل اللحم بالتراب ثم قال إن النہبۃ لیست بأحل من المیتۃ ۴۷؎ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے لوگوں کو اس سفر میں سخت بھوک اور کھانے کی ضرورت پیش آئی، انہیں بکریاں ملیں تو ہر شخص نے جو پایا اسے لوٹ لیا، ان کا گوشت ہماری ہانڈیوں میں پک رہا تھا تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمان ٹیکتے ہوئے آئے اور اپنی کمان سے ہماری ہانڈیوں کو الٹ دیا اور گوشت کو مٹی میں لتھیڑ دیا اور فرمایا لوٹ کا مال مردار سے کم حرام نہیں ہے۔‘‘ جبکہ ان ہانڈیوں میں پکنے والا گوشت لوٹ مار کی صو رت میں حاصل کیا گیا تھا جس میں بے اعتدال پائی جاتی ہے تو اس کا کھانا اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) کے اصول کے مطابق بھی درست نہ تھا، کیونکہ ان کے ہاں بھی دستور کے مطابق بقدر ضرورت لینے کی اجازت ہے، نھبۃ کی صورت میں حد اعتدال سے تجاوز کو وہ بھی صحیح نہیں سمجھتے۔بنابریں یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کسی اصول کے منافی نہیں ہے اس لئے قابل قبول ہے۔ خلاصہ بحث فقہاء کے ہاں ’نقد روایت کے درایتی اصولوں ‘ کے موضوع پر مذکورہ بحث سے مندرجہ ذیل چیزیں مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہیں : 1۔ نقد روایت کے درایتی اصولوں کا شہرہ متاخر اصولیوں کی کارگزاری ہے، ورنہ حقیقت میں علم فقہ اور علم حدیث دو مختلف علوم وفنون ہیں ، جن میں اپنے اپنے دائرہ کار کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں اور اس حقیقت کو دونوں علوم کے محققین اہل علم بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ 2۔ درایتی نقد کے نام پر قیاسی اصولوں سے صحیح احادیث کو ردکردیاگیاہے، جس سے سنت کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں کم ہوئی ہے۔ 3۔ سنت صحیحہ کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہ رہا ہے کہ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہوا ہے اسے بغیر کسی چوں وچراکے قبول کرلیا جائے، نہ اسے قرآن پر پیش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ سنن مشہورہ پر۔ نیزارشاد الٰہی:﴿ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ
Flag Counter