Maktaba Wahhabi

241 - 432
٭ اِمام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ۴۸۳ھ)مالکی لکھتے ہیں : وکل قول خالف السنۃ فمر دود ۴۱؎ ’’ہر وہ بات جوحدیث کے خلاف ہوگی رد کردی جائے گی۔‘‘ ٭ وہ مزید فرماتے ہیں : لأن اللّٰہ عزوجل قد أمر فی کتابہٖ عند تنازع العلماء وما اختلفوا فیہ بالرد إلی اللّٰہ ورسولہ ولیس فی جہل السنۃ فی شئ قد علمہا فیہ غیرہ حجۃ ۴۲؎ ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علماء کو حکم دیا ہے کہ وہ اگر کسی چیز میں اختلاف کریں تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائیں اور اگر ایک شخص کو حدیث کا علم ہے لیکن دوسرا شخص اس سے ناواقف ہے تو اس کی ناواقفی کودلیل نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ)کو اگر وہ حدیث پہنچ جاتی جو سات افراد کی طرف سے قربانی کے جواز پردلالت کرتی ہے تو امام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ)باقی بے شمار مسائل کی طرح اپنی اس رائے سے بھی رجوع کرلیتے، جو قربانی میں عدم اشتراک کے بارے میں انہوں نے اختیار کی ہے۔ ٭ اس حدیث کو اِمام ترمذی رحمہ اللہ (م ۲۷۹ھ)نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : قال کنامع رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی سفر فحضر الأضحی فاشتر کنا فی البقرۃ بسبعۃ وفی البعیر عشرۃ ۴۳؎ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اسی دوران قربانی کا دن آگیا تو ہم نے گائے میں سات اور اونٹ میں دس افراد نے شریک ہو کر قربانیاں کیں ۔‘‘ مثال نمبر۳ صحیح بخاری میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھوک سے مجبور ہوکر کچھ اونٹوں اور بکریوں کو ذبح کرکے ان کے گوشت کی ہانڈیاں چڑھا دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، جن میں مال غنیمت کے اونٹوں اور بکریوں کا گوشت غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی پکایا جارہا تھا۔ ۴۴؎ اعتراض اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ)اس روایت پر عمل نہیں کرتے۔ ٭ اِمام شاطبی رحمہ اللہ (م ۷۹۰ھ)ان روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : تعویلا علی أصل رفع الحرج الذی یعبر عنہ بالمصالح المرسلۃ فأجاز أکل الطعام قبل القسم لمن احتاج إلیہ ۴۵؎ ’’ان روایتوں کو اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) نے رفع حرج یعنی مصالح مرسلہ کے اصول کے منافی ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا اس لئے وہ ضرورت مند کے لئے مال غنیمت کی تقسیم سے قبل بھی اس میں سے کھانے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔‘‘ جواب تقسیم سے قبل مال غنیمت سے کھانے کی اجازت اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ)کے نزدیک اس صورت میں ہے جبکہ بقدر ضرورت پر
Flag Counter