Maktaba Wahhabi

240 - 432
جواب ’اہل درایت‘کا شغل یہ ہے کہ ہر وقت اس قسم کی امثلہ تلاش کرتے رہتے ہیں جن سے ان کے مسلک کی مطلب برداری ہوسکے، اسی لیے عام طور پر اپنے مطلب کی جو روایت یا قول جہاں نظر آئے اصل عبارت کے سیاق سے کاٹ کر اسے نقل کردیتے ہیں اور بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ درحقیقت اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کو سات افرادکی طرف سے قربانی کی صریح وہ حدیث نہیں پہنچی جسے ہم عنقریب ذکر کریں گے اوران کے ہاں اس کی دلیل ضحا یا کا ھدایا پر قیاس ہے، جو اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) اور اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)کی طرف سے پیش کیا گیا ہے،جو سات افراد کی طرف سے قربانی کے جواز کے قائل ہیں ۔ ٭ اِمام ابن رشد رحمہ اللہ (م۵۹۵ھ) فرماتے ہیں : وسبب اختلافہم معارضۃ الأصل فی ذلک للقیاس المبنی علی الأثر الوارد فی الھدایا وذلک أن الأصل ھو أن لایجزی إلا واحد عن واحد ۳۸؎ ’’ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)و اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)کے ساتھ اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارہ میں اصل اس قیاس کے مخالف ہے جو ھدی کے بارہ میں وارد ایک حدیث پر مشتمل ہے، کیونکہ اصل تو یہ ہے کہ ایک جانورایک ہی آدمی کی طرف سے قربان کیا جائے۔‘‘ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)کی طرف سے سات افراد کی طرف سے گائے یا اونٹ کی قربانی کے جواز پر جو قیاس پیش کیا گیا ہی،اِمام ابن رشد رحمہ اللہ (م۵۹۵ھ)اسے بمع اس حدیث کے جس پر یہ قیاس مبنی ہے، ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وأما الأثر الذی انبنیٰ علیہ القیاس المعارض لھذا الأصل فما روی عن جابر أنہ قال نحرنا مع رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ۔ فقاس الشافعی وأبوحنفیۃ الضحایا فی ذلک علی الھدایا وأما مالک فرجح الأصل علی القیاس المبنی علی ھذا الأثر ۳۹؎ ’’اس اصل کے خلاف قیاس کی جس حدیث پر بنیاد ہے، وہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے (بطور ھدی) حدیبیہ کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ سات افراد کی طرف سے نحر کیا۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)اور اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) نے قربانی کو ھدی پرقیاس کیا ہے لیکن اِمام مالک(م۱۷۹ھ) نے حدیث پر مبنی اس قیاس پر اصل کو ترجیح دی ہے۔‘‘ اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) کے نزدیک ایک جانور ایک آدمی کی طرف سے ذبح کرنا اصل ہے، جسے وہ قیاس پر فوقیت دیتے ہیں ۔گویا انہوں نے اصل کے ساتھ قیاس کو رد کیا ہے، لیکن چونکہ وہ قیاس ایک حدیث پر مبنی ہے اس لئے قیاس کا رد گویا حدیث کا رد ہے۔ اسی لئے ابن رشد رحمہ اللہ (م ۵۹۵ھ)نے اسے لفظ کأن برائے تشبیہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ٭ امام ابن رشد رحمہ اللہ (م۵۹۵ھ) مزید فرماتے ہیں : وھذا کأنہ رد للحدیث لمکان مخالفتہ للأصل فی ذلک ۴۰؎ ’’ یوں سمجھیں گویا انہوں نے اپنے اصل کے مخالف حدیث کو رد کردیا۔‘‘ جبکہ اس کے برعکس علماء امت بشمول مالکیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن و سنت کی کسی نص کے خلاف رائے و قیاس یا دیگر کسی عقلی اصول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
Flag Counter