Maktaba Wahhabi

239 - 432
وقد خالفت الحنفیۃ والعترۃ فی وجوب التتریب کما خالفوا فی التبیع ووافقہم ھاھنا المالکیۃ مع إیجابھم التبیع علی المشہور عندھم۳۳؎ ’’کتے کے جوٹھے برتن کو ایک دفعہ مٹی لگا کر سات مرتبہ دھونے سے احناف اور عترت نے اختلاف کیا ہے، مٹی کے ساتھ نہ ملنے سے متعلق مالکی بھی ان کے موافق ہیں ، اس کے باوجو د مالکیہ سات دفعہ دھونے کو واجب کہتے ہیں ۔ یہی ان کا مشہور مذہب ہے۔‘‘ رہا اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کا یہ کہنا کہ ’’حدیث تو آئی ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اگر کتے کا شکار کیا ہوا جانورکھایا جاسکتا ہے تو اس کا لعاب کیسے مکروہ ہوسکتا ہے‘‘ تو اس سے مقصود اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کے ہاں یہ ہے کہ وہ سات مرتبہ برتن دھونے کی علت کو نہیں سمجھ سکے اور اسے وہ امر تعبدی سمجھتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ سات مرتبہ برتن کو دھونے کے قائل ہیں ، جیسا کہ متعدد مالکی علماء نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ ٭ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)نے اس ضمن میں لکھا ہے: فجملۃ مذھب مالک عند أصحابہ الیوم أن الکلب طاھر وأن الإنا یغسل منہ سبعا عبادۃ ۳۴؎ ’’موجودہ مالکیوں کے ہاں اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ کتا پاک ہے اور اس کے جوٹھے برتن کو سات دفعہ عبادتاً دھویا جاتاہے۔‘‘ ٭ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ) آگے چل کر فرماتے ہیں : وشبہہ أصحابنا بأعضاء الوضوء الطاھرۃ تغسل عبادۃ ۳۵؎ ’’ہمارے مالکی دوستوں نے کتے کے جوٹھے برتن کو سات دفعہ دھونے کو اعضاء وضوء سے ملایا ہے جو پاک ہونے کے باوجود وضوء کرتے ہوئے عبادتاً دھوئے جاتے ہیں ۔‘‘ اب جب کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)ولوغ ِکلب سے برتن کو سات دفعہ دھونے کو تسلیم کرتے ہیں اور اس سے متعلق حدیث پر ان کا عمل بھی ہے تو ’اہل درایت‘ کا اسے مخالف قیاس ہونے کی بنا پر اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے ہاں رد کرنے کا دعویٰ حقیقت کے خلاف ہے، لہٰذا ناقابل قبول ہے۔ مثال نمبر۲ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أمرنا رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أن نشترک فی الإبل والبقر کل سبعۃ منا فی بدنۃ ۳۶؎ ’’رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت دی کی سات آدمیوں کی طرف سے ایک گائے یا اونٹ کی قربانی کی شرکت ہوسکتی ہے۔‘‘ اعتراض ٭ مذکورہ روایت کے بارے میں ابن رشد الحفید رحمہ اللہ (م ۵۹۵ھ)لکھتے ہیں : رد الحدیث لمکان مخالفتہ للأصل فی ذلک۳۷؎ ’’ اصل کی مخالفت کی وجہ سے اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے اس حدیث کو رد کردیا ہے،کیونکہ قیاس یہ ہے کہ ہر آدمی کی طرف سے ایک ہی جانور قربانی کیا جائے، اس لئے اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)ان روایات پرعمل نہیں کرتے۔‘‘
Flag Counter