Maktaba Wahhabi

237 - 432
والقیاس أیضا مقدم علی خبر الواحد لأن خبر الواحد یجوز علیہ النسخ والغلط والسہو والکذب والتخصیص ولا یجوز من الفساد علی القیاس إلا وجہ واحد، وہو ہل الأصل معلول بہذہ العلۃ أم لا؟ وما جاز علیہ أجہ کثیرۃ مما تبطل علیہ الحجۃ بہ أضعف مما لم یجز علیہ إلا وجہ واحد۲۴؎ ’’قیاس کو بھی خبر واحد پر ترجیح حاصل ہے، کیونکہ خبر واحد میں نسخ، غلطی، بھول، جھوٹ اور تخصیص کے متعدد احتمالات ہیں ، جبکہ قیاس میں کمزوری کا صرف ایک احتمال ہے کہ آیا اصل حکم فی الواقع اس علت پر مبنی ہے؟ اور جس چیز میں ضعف کے احتمالات زیادہ ہوں ، وہ اس چیز کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہے جس میں کمزوری کا صرف ایک احتمال پایا جائے۔‘‘ اصول کا تنقیدی جائزہ روایت کا تعلق چونکہ فقط حس سے ہے اور یہ افراد سے ہی آگے نقل ہوتی ہے، چنانچہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے افراد کے لئے عدالت اور حو اس ِظاہرہ سے حاصل ہونے والی شے کی حفاظت و ضبط کے لئے راوی کے لئے درست حافظہ اور اس کے ضابط ہونے کو مشروط ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ روایت میں کسی بھی راوی کے لئے بنیادی و انتہائی شروط دو ہی ہیں:عدالت ، ضبط۔ اور کوئی تیسری شرط عائد کرنا عقلی طور پر مناسب ہی نہیں کیوں کہ خبر کا تعلق حس سے ہے اور حس سے متعلق اشیاء کا تعلق یاد داشت و نقل کے حوالے سے فقط حافظے سے ہی ہوتا ہے۔ بنا بریں تمام محدثین کرام رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ المسنِد (روایت اپنی سند سے بیان کرنے والا راوی) کے لئے کوئی لازمی نہیں ، اسے روایت کے معنی پر بھی تفقُّہ حاصل ہو،کیونکہ خبر کی محفوظیت کا تعلق فقط حافظے سے ہے۔ ۲۵؎ بعض لوگ ’درایت‘ کا نام لے کر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناقابل عمل اور ناقابل قبول گردانتے ہیں ، حالانکہ دین میں اصل صرف دو چیزیں ہیں:کتاب اللہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ان کے سوا ہر چیز کو ان پرپیش کیا جائے گا۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)فرماتے ہیں : الکتاب والسنۃ فی الحقیقۃ ھما الأصل والاخران مردودان إلیہما، فالسنۃ أصل والقیاس فرع فکیف یرد الأصل بالفرع ۲۶؎ ’’درحقیقت کتاب و سنت ہی اصل ہیں ، اجماع اور قیاس کو انہی کی طرف لوٹایا جائے گا، جبکہ حدیث اصل اور قیاس فرع ہے تو فرع سے اصل کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے؟‘‘ ٭ اِمام ابن سمعانی رحمہ اللہ (م ۴۷۹ھ)کہتے ہیں: ’’صحیح ثابت حدیث مستقل اصل ہے، اسے کسی دوسرے اصل پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اس کا غیر اس کے موافق ہو تو ٹھیک اور اگر اس کے خلاف ہو تو قیاس سے حدیث کو ناقابل عمل قرار دینا بالاتفاق مردود ہے اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ حدیث صحیح، قیاس پر مقدم ہے۔‘‘ ۲۷؎ بنا بریں کسی بھی حدیث کو قیاس پر پیش کرنے کے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ فقہاء اور مجتہدین کرام رحمہم اللہ کے اجتہادات وقیاسات کی صحت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کروانی چاہیے، ناکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان اصولوں کو مہیمن قراردیا جائے۔ چند روایات کی روشنی میں مذکورہ اصول کا جائزہ اس سلسلہ کی چند روایات درج ذیل ہیں :
Flag Counter