Maktaba Wahhabi

236 - 432
’’ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ) نے کہا ہے فقہائے سلف میں سے کسی نے بھی موزوں پرمسح کا انکار نہیں کیا، ہاں اِمام مالک سے یہ انکار منقول ہے، لیکن ان سے بھی صحیح روایت موزوں پرمسح کے جواز کی ہے۔‘‘ ٭ الاستذکارمیں حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)اس سے بڑھ کر فرماتے ہیں : لا أعلم احدا من فقہاء المسلمین روی عنہ إنکار ذلک إلا مالکا والرویات الصحاح عنہ بخلاف ذلک موطؤہ یشھد للمسح علی الخفین فی الحضر والسفر وعلی ذلک جمیع أصحابہٖ وجماعۃ أہل السنۃ ۲۱؎ ’’میرے علم میں مسلمان فقہاء میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نیمسح علی الخفین کا انکار کیا ہو، اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے اگرچہ انکار منقول ہے لیکن صحیح روایات اس کے خلاف (اس کا جواز ثابت کرتی) ہیں اور اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے مؤ طا سے بھی سفر و حضر میں مسح کے جواز کی تائید ہرتی ہے یہی مذہب تمام مالکیوں اور جماعت اہل سنت کا ہے۔‘‘ ٭ قاضی ابوالولید الباجی مالکی رحمہ اللہ (م ۴۷۴ھ)نے تو یہ ثابت کیا ہے کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے اپنے انکار سے رجوع کرلیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں : عن ابن وھب أنہ قال آخر ما فارقتہ علی المسح فی السفر والحضر.... فدل ذلک علی أنہ،منعہ أولاعلی وجہ الکراھیۃ لما لم یراھل المدینۃ یمسحون ثم رأی الاثار فأباح المسح علی الإطلاق۲۲؎ ’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے شاگرد ابن وھب رحمہ اللہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:’’آخری مرتبہ جب میں نے اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کو چھوڑا تو اس وقت وہ سفر و حضر میں موزوں پر مسح کیا کرتے تھے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے اس کا پہلے انکا رکیا تھا جبکہ انہوں نے دیکھا کہ اہل مدینہ موزوں پرمسح نہیں کرتے، مگر جب انہیں اس کے جواز کی احادیث ملیں تو وہ سفر و حضر میں موزوں پر مسح کے جواز کے قائل ہوگئے تھے۔‘‘ ٭ قاضی باجی رحمہ اللہ (۴۷۴ھ)مزید لکھتے ہیں: فاما المسح فی الحضر فعن مالک فیہ روایتان احداھما المنع والثانیۃ الإباحۃ وھو الصحیح وإلیہ رجع مالک والدلیل علی ذلک حدیث: علی بن أبی طالب قال جعل رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ثلاثۃ أیام ولیا لیھن للمسافر و یومًا ولیلۃ للمقیم۲۳؎ ’’حضر میں موزوں پرمسح کے بارہ میں اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) سے دو روایات آتی ہیں:ایک منع کی اور دوسری جواز کی اور جواز کی روایت ہی صحیح ثابت ہے، جس کی طرف اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے رجوع کرلیا تھا جس کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو تین دن اور تین راتیں موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات تک۔‘‘ اب جبکہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے موزوں پر مسح کا جواز صحیح ثابت ہے اور اس کے انکار سے انہوں نے رجوع کر لیا تھا تو اس قسم کی مثالیں دے کرآج کے دور میں بعض متجددین درایتی نقد کا نام دے کر کیوں تلبیس پیدا کرتے ہیں ؟ 3۔ مخالف قیاس روایات متاخرین فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کے ہاں بھی خلاف قیاس روایت قابل قبول نہیں اور علمائے احناف کے بر خلاف وہ اس ضمن میں فقیہ اور غیر فقیہ راوی کی روایت میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ ٭ اِمام ابن رشد الجدّ رحمہ اللہ (م ۵۲۰ھ) لکھتے ہیں :
Flag Counter