بس یہ حدیثیں ہی ہیں جبکہ خلفاء راشدین (اور اہل مدینہ) کا عمل اس پر نہیں ہے کتاب اللہ کے حکم (غسل) پر ہی عمل کرنا درست ہے۔‘‘ جواب اِمام ابن رشد رحمہ اللہ (م۵۹۵ھ)نے اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) سے حضر میں موزوں پر مسح نہ کرنے کی جو وجہ ذکر کی ہے، وہ سفر کے دوران موزوں پر مسح کرنے کے جواز کے قائل ہونے کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ سفر کی حالت میں موزوں پر مسح کرنے کا جواز بھی قرآن کریم سے تو ثابت نہیں ہے اس کے حق میں بھی تو حدیثیں ہی ہیں جن پر اعتماد کیا گیاہے اور جب سفر کے دوران مسح علی الخفین کو احادیث کی وجہ سے اختیارکرلیاگیاہے، حالانکہ قرآن کریم میں غسل کا حکم ہے تو حضر کی حالت میں بھی احادیث نبویہ کے پیش نظر موزوں پر مسح کیا جاسکتا ہے۔ مسح علی الخفین کے بارے میں دراصل اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے تین مختلف اقوال مروی ہیں ، جنہیں امام ابن رشد رحمہ اللہ (م ۵۹۵ھ) نے نقل کیا ہے۔ ٭ امام ابن رشد رحمہ اللہ (م ۵۹۵ھ) مزید فرماتے ہیں : القول المشہور أنہ جائز علی الإطلاق وبہٖ قال جمہور فقہاء الأمصار والقول الثانی جوازہ فی السفر دون الحضر والقول الثالث منع جوازہ بإطلاق وھوأشدھا والأ قاویل الثلاثۃ مرویۃ عن الصدر الأول وعن مالک ۱۸؎ ’’ مشہور قول یہ ہے کہ موزوں پرمسح حضر و سفر دونوں حالت میں جائز ہے اسی کے دیارِ اسلامیہ کے جمہور فقہاء قائل ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ سفر میں جائز ہے، حضر میں نہیں ۔ تیسرا قول جو ان اقوال میں سے سختی پر مشتمل ہے وہ یہ ہے کہ موزوں پر مسح سفر و حضر ہر حالت میں منع ہے اور یہ تینوں اقوال صدر اول کے لوگوں سے اور اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے بھی مروی ہیں ۔‘‘ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے ان تینوں اقوال کے مروی ہونے کی صورت میں کسی ایک قول کو دلیل نہیں بنایاجا سکتا، جب تک کہ آپ سے اس کی صحت کو ثابت نہ کردیا جائے اور اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے پہلا قول صحیح ثابت ہے کہ سفروحضر میں موزوں پرمسح کیا جاسکتا ہے۔ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں : أجمع من یعتد بہ فی الإجماع علی جواز المسح علی الخفین فی السفر و الحضر سواء کان لحاجۃ أولغیر ھا حتی یحوز للمرأۃ الملازمۃ بیتہا و الزمن الذی لا یمشی وإنما أنکرتہ الشیعۃ والخوارج ولا یعتد بخلافہم وقدروی عن مالک روایات فیہ والمشہور فی مذھبہ کذہب الجماھیر۱۹؎ ’’جن لوگوں کے اجماع کا اعتبار ہے وہ سب سفر و حضر میں موزوں پر مسح کے جواز پر متفق ہیں اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو اسی لئے گھر میں رہنے والی عورت بھی یہ مسح کرسکتی ہے اور لولا لنگڑا شخص بھی موزوں پر مسح کرسکتا ہے جو چلنے سے عاجز ہوتا ہے۔ شیعہ اور خوارج نے اس کا انکار کیا ہے اور ان کے اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے اس بارہ میں مختلف روایات آئی ہیں لیکن ان کا بھی مشہور مذہب جمہور فقہاء کی طرح ہے (جو مطلقاً جواز کے قائل ہیں )۔‘‘ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)فرماتے ہیں : قال ابن عبد البر لا أعلم روی عن أحد من فقہاء السلف إنکارہ إلاعن مالک مع أن الروایات الصحیحۃ عنہ مصرحۃ بإثیاتہ ۲۰؎ |