جواب خیار مجلس سے مراد وہ حدیث ہے، جوعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے: عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أنہ قال إذا تبایع الرجلان فکل واحد منہما بالخیار مالم یتفرقا وکانا جمیعا ۱۳؎ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو شخص خرید و فروخت کریں تو ان میں سے ہر ایک (بائع اور مشتری) کو وہ چیز واپس لینے یا دینے کا اختیار حاصل ہے جب تک کہ وہ آپس میں (اس مجلس سے)جدا نہ ہوں اور اکٹھے رہیں ....‘‘ ٭ خیار مجلس حاصل ہونے پراہل مدینہ کا عمل تھا یا نہیں ؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)اسے ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وتعقب بأنہ قال بہٖ ابن عمر ثم سعید بن المسیب ثم الزھری ثم ابن أبی ذئب کما مضی، وھؤلاء من أکابر علماء أھل المدینۃ فی أعصارھم ولا یحفظ عن أحد من علماء المدینۃ القول بخلافہ سوی عن ربیعۃ۱۴؎ ’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، سعید بن مسیب ، ابن شہاب زہری، ابن ابی ذئب رحمہم اللہ جیسے علماء خیار مجلس کے قائل تھے اور یہ حضرات اپنے اپنے دور میں مدینہ کے بڑے بڑے فقہاء وعلماء میں شمار ہوتے تھے، اور یہ حضرا ت اپنے اہل مدینہ میں سے کسی سے بھی خیار مجلس کی مخالفت ثابت نہیں ہے۔‘‘ ربیعہ رائی رحمہ اللہ چونکہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے اساتذہ سے ہیں ، خیار مجلس کی حدیث پر صرف ان کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے مطلقاً اس حدیث کو عمل اہل مدینہ کے خلاف کہہ دیا ہے، جیسا کہ یہ انکا اصول ہے۔ خیار مجلس کی حدیث کے پیش نظر شوافع اور حنابلہ اس کے قائل ہیں اور مالکی اور حنفی علماء اس کا انکار کرتے ہیں ۔ مالکی تو صرف یہ کہہ کر اس حدیث کو چھوڑدیتے ہیں کہ یہ عمل اہل مدینہ کے خلاف ہے، لیکن علمائے احناف کے ہاں یہ حدیث خلاف مذہب ہونیکی وجہ سے قابل عمل نہیں ۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ (م ۱۳۳۹ھ)حدیث مذکور کی صحت کوماننے کے باوجود اس کے ناقابل قبول ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والحق والانصاف أن الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلۃ، نحن مقلدون یحب علینا تقلید إمامنا ۱۵؎ ’’حق بات اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس (خیار مجلس کے) مسئلہ میں راجح مذہب اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)کا ہے (جو خیار مجلس کے قائل ہیں )، لیکن ہم چونکہ مقلد ہیں لہٰذا ہم پر اپنے اِمام ابوحنیفہ (م ۱۵۰ھ)کی تقلید کرنا واجب ہے (جو کہ خیار مجلس کے قائل نہ تھے)۔‘‘ مثال نمبر۲ سنن ابو داؤد کی بعض وہ روایات جن میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے حضر کی حالت میں موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ثابت ہے۔ ۱۶؎ اعتراض اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) اس رخصت کے قائل نہیں ۔ ٭ اِمام ابوالولید رحمہ اللہ (م ۵۲۰ھ) ابن رشد الجد رحمہ اللہ (م ۵۹۵ھ)اس حوالے سے لکھتے ہیں : وسئل عن المسح علی الخفین فی الحضر أیمسخ علیہما؟ فقال لا، ما أفعل ذالک.... وإنما ہی ہذہ الأحادیث۔ قال ولم یروا یفعلون ذالک وکتاب اللّٰہ أحق أن یتع ویعمل بہ ۱۷؎ ’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)سے حضر میں مسح علی الخفین کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا میں ایسا نہیں کرتا۔ اس کے حق میں تو |