دین میں کسی بات کے تعین کے سلسلہ میں کوئی اضافی حق نہیں رکھتے۔ کیا اہل مدینہ کا عمل یا دوسری صدی میں لوگوں کا رواج و تعامل احکاماتِ شریعت کی تعیین کے لئے حتمی و قطعی ذریعہ ہیں ؟ باقی رہا اس ضمن میں اصحاب مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کا یہ مفروضہ کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے زمانے میں لوگوں کاجو عمل تھا، وہ عہد صحابہ سے منقول چلا آرہا تھا چنانچہ اسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہی سمجھا جائے، تو اس پر ہم احتراما عرض کریں گے کہ یہاں انہوں نے دو پہلوؤں سے غلطی کی ہے: 1۔ پہلی غلطی اس تصور میں کہ’ عمل اہل مدینہ تمام مسلمانوں کے لئے حجت ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ خود اس کی حیثیت محققین اصحاب مالک رحمہ اللہ کے بقول اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے ہاں مسلم نہ تھی،جیساکہ محقق مالکی علماء قاضی عبدالوہاب رحمہ اللہ (م ۷۷۱ھ) اور ابوالولید الباجی رحمہ اللہ (م ۴۷۴ھ)نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اگر اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کی نگاہ میں اس کی کچھ حیثیت ہوتی تو جب خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ (م ۱۹۳ھ)نے ان سے چاہا کہ تمام مسلمانوں کو موطا پرعمل کرنے کے لئے کہا جائے اور اسے دستور کی حیثیت دے دی جائے تو وہ اس کی بات مان لیتے، لیکن انہوں نے اسے نہ مانا اور فرمایا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک میں پھیل گئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس وہ علم ہے جو دوسروں کے پاس نہیں ہے۔ میں نے تو فقط اپنے شہروالوں کا علم یکجا کیا ہے۔اس متاخر عمل کوحجت فقط بعض جامدمقلد قسم کے مالکی علماء ہی مانتے ہیں ۔۱۰؎ 2۔ ان کا سارے کا سارا عمل عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول چلا آرہا ہے۔ اس کے جس حصے کی واقعی یہ حیثیت ہے اس کی حجیت ان ہی کو نہیں ، بلکہ سب کو تسلیم ہے اور اس کا جو حصہ اجتہاد اور استدلال پر مبنی ہے، ان کے اور دوسروں میں ا ختلاف اس کے بارے میں ہے اور اس اجتہاد یا استدلال کو شریعت قرار دینا اور اس پر عمل اہل مدینہ کا حجت گرداننا کسی طور پر صحیح نہیں اور یہ کیو ں نہ ہو کہ خود مدینہ میں خلافت راشدہ کے دور ثالث کے آخر میں شہادت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا تھا۔ چند روایات کی روشنی میں مذکورہ اصول کا جائزہ فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کی طرف سے نقدروایت کے درایتی تصور میں مذکورہ عنوان کے اعتبار سے جن احادیث کو ناقابل قبول گردانا گیا ہے، ان میں سے چند کا تذکرہ بطور مثال ذیل میں کیا جارہا ہے: مثال نمبر۱ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ((المتبایعان کل واحد منہما بالخیار علی صاحبہ ما لم یتفرقا)) ۱۱؎ ’’ دو آدمی جب آپس میں بیع کریں تو ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے پہلے دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘ اعتراض ٭ مذکورہ حدیث کے بارے میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)لکھتے ہیں : ولا یری العمل بحدیث خیار المتبایعین.... لما اعترضہما عندہ من العمل۱۲؎ ’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) خیار مجلس کی حدیث پر عمل نہیں کرتے کیونکہ یہ عمل اہل مدینہ کے معارض ہے۔‘‘ |