Maktaba Wahhabi

232 - 432
﴿ وَأُمَّہَاتُکُمُ الّٰتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ﴾ ۔‘‘ جواب فقط قرآن کریم سے کسی بھی آدمی کا کوئی بھی استدلال صرف تب صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے، جبکہ قرآن مجید خانہ کعبہ کی چھت پراتارا گیا ہو اور وہاں سے اٹھا کر ہر شخص کو اپنی فہم و فراست کے مطابق اس پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم کا نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر ہواہے ۔ اس کی تشریح و تبیین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب میں داخل ہے ۔ چنانچہ مسئلہ ہذا میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد اسے پانچ رضعات سے مقید کیاہے۔ آیت سرقہ میں اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) جس طرح معمولی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ اسے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ربع دینار یا ثلاثہ ودراہم سے مقید کرتے ہیں ، اسی طرح آیت رضاعت میں بھی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے مقید کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ دو شرعی دلیلوں میں سے کسی ایک کو چھوڑنے کی بجائے دونوں پر عمل کرنا چاہئے۔ 2۔ عمل اہل مدینہ اور اس کے خلاف روایات ٭ اِمام ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)، اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کا موقف عمل اہل مدینہ کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں : فجملۃ مذہب مالک فی ذلک إیجاب العمل بمسندہ ومرسلہ مالم یعترضہ العمل بظاہر بلدہ ۷؎ ’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مسند یا مرسل خبر واحد پر عمل کرتے ہیں بشرطیکہ وہ عمل اہل مدینہ کے خلاف نہ ہو۔‘‘ ٭ اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے ابن رشد الجدّ رحمہ اللہ (م ۵۲۰ھ) لکھتے ہیں : إن العمل أقوی عندہ من خبر الواحد لأن العمل المتصل بالمدینۃ لا یکون إلا أن توقیف فہو یجری مجری ما نقل نقل التواتر من الأخبار فیقدم علی خبر الواحد ۸؎ ’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے نزدیک اہل مدینہ کا عمل خبر واحد کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، کیونکہ اس شہر میں جاری ہونے والا عمل بہرحال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے احکام کے خلاف نہیں ہوسکتا، پس یہ متواتر روایت کے قائم مقام ہے اور اسے خبر واحد پر ترجیح حاصل ہے۔‘‘ اُصول کا تنقیدی جائزہ ٭ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کے مذکورہ اصو ل پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جب ایک حدیث کی روایت صحیح ہو یعنی اس کو عادل، معتبر اور ان لوگوں نے روایت کیا ہو، جن کا حافظہ قوی ہو تو اس کا اتباع کرنا، اس کو قبول کرنا اور اس سے احکام مستنبط کرنا ہم پر لازم ہے، خواہ یہ عمل اہل مدینہ کے موافق ہو یا مخالف، خواہ یہ مقررہ اصول اور قیاس کے تقاضے کے مطابق ہو یا نہ ہو، خواہ اس کے راوی کااس پر عمل ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ کسی ایسے واقعہ کے بارے میں ہو جو کثرت سے پیش آتا ہے یا کبھی کبھی ، اہل مدینہ کا اتفاق کوئی حجت نہیں کیونکہ وہ کل امت نہیں بلکہ امت کا ایک جزء ہیں ۔‘‘ ۹؎ اس سلسلہ میں ہم عرض کریں گے کہ اہل مدینہ کا عمل ہو یا امت کا عمل تواتری (جسے اصلاحی مکتب فکر’سنت‘ کی اصطلاح سے بیان کرتا ہے) یا متن ِروایت پرصحابہ و تابعین کے دور میں تعامل کااصول ہو، ان تمام کی نوعیت یہ ہے کہ ان سے امت کے مختلف ادوار یا مختلف علاقوں کے اہل علم کا طرز عمل مراد لیا جارہا ہے ، ان تمام طبقات کا احترام اپنی جگہ، لیکن نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات کے بعد یہ لوگ
Flag Counter