Maktaba Wahhabi

231 - 432
چند روایات کی روشنی میں مذکورہ اصول کا جائزہ اس اصول پر انہوں نے متعدد روایات کو قبول نہیں کیا۔ مثال نمبر۱ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ((من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ)) اعتراض ٭ اِمام شاطبی رحمہ اللہ (م ۷۹۰ھ) علمائے موالک کے ہاں اس روایت کو ناقابل قبول شمار کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : لمنافاتہ للأصل القرآن الکلی نحو قولہ تعالی:﴿ألّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أخْرٰی وَأنْ لَّیْسَ لِلإنْسَانِ إلَّا مَا سَعٰی﴾ ۴؎ ’’کیونکہ یہ قرآن کے بیان کردہ اس ضابطے کے خلا ف ہے کہ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ انسان کے لئے وہی عمل کارآمد ہیں جو اس نے خود کئے ہوں ۔‘‘ جواب جہاں تک پہلے ضابطہ کا تعلق ہے تو یہ حدیث اس کے معارض نہیں ہے، کیونکہ قرآنی ضابطے میں بوجھ اور وزر سے مراد گناہ کا بوجھ ہے، جبکہ میت کی طرف سے روزہ رکھنا نیک عمل ہے۔ رہا دوسرا ضابطہ تو حدیث نبوی بھی اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ میت کے روزے رکھنے کا حکم اس کے اولیاء کو دیا گیا ہے، جواس کی اولاد اور قریبی رشتے داروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور میت کی اولاد بھی اس کی سعی اور محنت میں شامل ہے۔ جنہیں اس نے اسلامی تربیت میں رنگا ہے۔ جیساکہ دوسری حدیث میں ہے: (( إن أطیب ما أکل الرجل من کسبہ وإن ولدہ من کسبہٖ)) ۵؎ ’’بے شک عمدہ رزق جو انسان کھاتا ہے وہ ہے جو وہ خود کماتا ہے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی میں شامل ہے۔‘‘ لہٰذا حدیث مذکورہ قرآنی ضابطوں کے خلاف نہیں ہے۔ مثال نمبر۲ اِمام مسلم(م۲۶۱ھ)،اِمام مالک(م۱۷۹ھ)،اِمام ابوداؤد(م۲۷۵ھ)،اِمام ترمذی(م۲۷۹ھ)اوراِمام نسائی(م۳۰۳ھ) رحمہم اللہ کی کتب حدیث میں موجود وہ احادیث جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک بچہ پانچ یا دس مرتبہ کسی عورت کا دودھ نہ پی لے، حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ اعتراض ٭ مذکورہ روایات کے بارے میں اِمام شاطبی رحمہ اللہ (م ۷۹۰ھ)فرماتے ہیں : ولم یعتبر فی الرضاع خمسا ولا عشرا للأصل القرآن فی قولہ تعالی:﴿وَأُمَّہَاتُکُمُ الّٰتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ﴾ ۶؎ ’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے رضاع میں پانچ یا دس مرتبہ کا اعتبار نہیں کیاکیونکہ یہ چیز قرآن کی اس آیت کے عموم کے خلاف ہے:
Flag Counter