علی الإطلاق وہو مما لا یختلف فیہ ۳؎ ’’ظنی دلیل اگر قطعی دلیل کے مخالف ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:ایک یہ کہ اس کا اصل کے مخالف ہونا قطعی ہو، اس صورت میں اس کو رد کردینا لازم ہے۔ دوسری یہ کہ اس کا اصل کے خلاف ہونا ظنی ہو، یا تو اس لیے کہ اصل کے ساتھ اس کی مخالفت ظنی ہے اور یا اس لیے کہ اصل کا قطعی ہونا متحقق نہیں ہوا۔ اس دوسری صورت میں مجتہدین کے لیے اختلاف کی گنجائش ہے۔ لیکن اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ظنی کا قطعی کے مخالف ہونا ظنی کو ساقط الاعتبار کردیتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔‘‘ اُصول کا تنقیدی جائزہ روایت کو قرآن پر پیش کئے جانے کا اصول اول تو بنیاداً ہی غلط ہے، کیونکہ جس مفہوم میں آپ قرآن اور صحیح سند سے ثابت ہو جانے والی روایت میں تضاد خیال کر رہے ہیں ، وہ آپ کا فہم ہے۔ اسے کسی طرح بھی قرآن یا حدیث قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی فقہ انسانی کو شریعت قرار دینا کسی طور پر جائز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ کی نسبت مجتہد کی طرف ہی ہوتی ہے، اسے فقہ و مراد الٰہی کہنا جائز نہیں ۔ ٭ اس بات کی تائید صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر کو جنگ پربھیجتے تو فرماتے کہ کسی قلعہ والے کو امان دیتے وقت اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ پر امان مت دینا، بلکہ اپنے ذمہ پر امان دینا، کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہیں امان نہ دینا چاہتے ہوں ۔‘‘ اس حدیث کواِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ)نے مختلف سندوں سے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور اس حدیث کے بعض طرق میں اس سلسلہ میں کافی مفید باتیں بھی موجود ہیں ۔اس لئے اصول یاد رہے کہ ’’فقہ از خود شریعت نہیں ہوتی، بلکہ ماخوذ از شریعت ہوتی ہے۔‘‘ الغرض روایت کو قرآن پر پیش کرنے کا مطلب ماسوائے اس کے کیا ہے کہ آپ اسے اپنے قرآن سے سمجھے ہوئے اپنے فہم پرپیش کریں ، حالانکہ وہ قرآن نہیں ۔ پھر آپ ہی واضح فرمائیے کہ دو صحیح سند سے ثابت ہوجانے والے متن(یعنی وہ قرآن و سنت ہوں یا وہ دو سنتیں ہوں یا دونوں قرآن کی آیات ہوں ) باہم آپس میں متضاد ہوسکتے ہیں ؟ اس سے بڑی دلیل اللہ اور اس کی شریعت کے ناقص ہونے پراور کیا ہوسکتی ہے؟ ٭ اس لئے اِمام دارمی رحمہ اللہ (م ۲۵ھ)اپنی سنن کے شروع میں یعلی بن حکیم رحمہ اللہ (م ۱۲۰ھ)کے طریق سے سعید بن جبیر رحمہ اللہ (م ۹۵ھ) کا قول لکھتے ہیں : ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قرآن مجید سے اختلاف کے لئے تشریف لائے تھے۔‘‘ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن قطعی الثبوت ہے لیکن اس کی دلالت کہیں قطعی ہے اور کہیں ظنی۔ اگر یہ بات ہم تسلیم کر لیں کہ احادیث و روایات کو لازماً قرآن کے متن سے پرکھا جانا چاہئے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح سند سے صادر ہونے والے قرآن کی تشریح وتبیین سے متعلق اقوال وافعال اور تقریرات دو بنیادی قسموں پر مشتمل ہیں : 1۔ جو قرآن کے مطابق ہوں ،یہ واجب العمل ہیں ۔ 2۔ جو قرآن کے خلاف ہوں ، یہ لائق رد ہیں ۔ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی تشریعی زندگی کا ایک پہلو خدانخواستہ قرآن سے اختلاف کا بھی ہے، حالانکہ یہ بات کوئی ہوش مند تو کیا معمولی سی عقل والا انسان بھی نہیں کہہ سکتا۔ |