جواب علامہ جصّاص رحمہ اللہ (م ۳۷۰ ھ)کی غلط فہمی کا سبب اصل میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی جب پانچ رضعات کی حرمت والی آیت پڑھی جاتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تلاوت آپ کی وفات کے بعد منسوخ ہوئی ہے، حالانکہ نسخ کا تعلق آپ کی زندگی سے ہے، وفاۃ النبی کے بعد کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا۔ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ)اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : معناہ أن النسخ بخمس رضعات تأخر إنزالہ جد احتی أنہ صلي اللّٰه عليه وسلم توفی و بعض الناس یقرأ خمس رضعات ویجعلہا قرآنا متلوا لکونہ لم یبلغہ النسخ لقرب عہدہ فلما بلغہ النسخ بعد ذلک رجعوا عن ذلک وأجمعوا علی أن ھذا لا یتل۱۰۲؎ ’’حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مراد یہ ہے کہ پانچ رضعات کی حرمت پرمشتمل آیت کا نسخ بہت دیر بعد ہوا تھا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدبھی بعض وہ لوگ قرآن سمجھ کر اس کی تلاوت کرتے رہے جنہیں اس کے نسخ کی خبر نہیں پہنچی تھی اس کے بعد جب انہیں اس کا نسخ پہنچا تو انہوں نے اس کی تلاوت سے رجوع کرلیا اور سب لوگ اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس (منسوخ آیت) کی تلاوت نہیں ہوسکتی۔‘‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت کا نسخ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوچکاتھا لیکن بعض لوگوں کو اس کی خبر نہیں پہنچی تھی وہ آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد بھی اس کی تلاوت کرتے رہے، جب انہیں اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اس کی تلاوت چھوڑ دی اور سب اس کی عدم تلاوت پر متفق ہوگئے تھے۔ مثال نمبر۲ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ لبیدبن عاصم یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجادو کیا جس کا اثر آپ پر اس طرح ظاہر ہوا کہ آپ کام کرنے کے بعد بھول جاتے کہ آپ نے اسے کیا ہے۔ اعتراض ٭ اِمام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ (م ۳۷۰ ھ)اس روایت کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہیں : ومثل ہذا الأخبار من وضع الملحدین.... والعجب ممن یجمع بین تصدیق الأنبیاء علیہم السلام وإثبات معجزاتہم وبین التصدیق بمثل ہذا من فعل السحرۃ ۱۰۳؎ ’’اس طرح کی روایات ملحدین کی وضع کردہ ہیں اور ان لوگوں پر تعجب ہے جو انبیاء کی تصدیق کرتے اور ان کے معجزات کو مانتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ جادوگر انبیاء پر یہ عمل کرسکتے ہیں ۔‘‘ جواب وحی کے تابع رہ کر عقل سے استفادہ کرنا مسلمہ حقیقت ہے ، لیکن حقائق وحی کا انکار کردینا عقل پرستی کے زمرے میں آتا ہے جو قابل مذمت ہے۔ معتزلہ شروع سے عقل پرستی کا شکار چلے آرہے ہیں ۔ علامہ جصاص (م ۳۷۰ ھ) بھی چونکہ معتزلی عقائد کی طرف مائل رہے ہیں اس لئے جو چیزیں انہیں اپنی عقلی حدود سے ماوراء نظر آتی ہیں ان کا انکار کردینے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔ |