حامل ہے، چنانچہ جو تعبیر اِمام شریعت کی کرے وہی متعین ہے اور اسے چھوڑنا ہدایت کو چھوڑنے کے مساوی ہے۔ ہمارا طالب علمانہ استفسار ہے کہ آپ چاہیں تو اِمام صاحب کی ہر قسم کی بات چھوڑتے ہوئے ان شاگردوں کی اتباع کرلیں تو جائز ہے، لیکن اگر کوئی اور کسی دوسرے اِمام کی دلیل شرعی کی بنا پر پیروی کرتاہے، تو وہ قابل ملامت کیوں قرار پاتا ہے؟ کیا اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)کے درج ذیل ارشادات لائقاتباع نہیں : ٭ إذاصحّ الحدیث فھو مذھبی ۹۹؎ ٭ لایجوز لاحد أن یفتی علی رأیی بغیر أن یعرف دلیلی۹۹؎ ٭ اِمام ابوحنفیہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کی تو خاص عادت مبارکہ تھی کہ اجتہاد کرتے ہوئے خصوصا ً فرمایا کرتے: ’’ھذا رأی أبی حنیفۃ‘‘ یعنی یہ ایک انسان کا کلام ہے،چنانچہ متنبہ ہوجاؤ کہ غلطی بھی کرسکتا ہے۔۹۹؎ ٭ اِمام خطابی رحمہ اللہ (م ۳۸۸ ھ)نقد روایت کے اس درایتی اصول کے حوالے سے لکھتے ہیں : والأصل أن الحدیث إذا ثبت عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وجب القول بہ وصار أصلا فی نفسہ۱۰۰؎ ’’اصول یہ ہے کہ جب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صحیح ثابت ہوجائے تو (اصول اور مسلمات کے نام پر اسے رد کردینے کے بجائے یوں سمجھنا چاہیے کہ) وہ خود ایک اصول کا درجہ رکھتی ہے، چنانچہ اس کے مطابق فتوی وعمل واجب ہے۔‘‘ چند روایات کی روشنی میں مذکورہ اصول کا جائزہ اس سلسلہ میں فقہائے احناف رحمہم اللہ کی طرف سے نقدروایت کے درایتی تصور کے عنوان سے جن احادیث کو ناقابل قبول گردانا گیا ہے، ان میں سے چند کا تذکرہ بطور مثال ذیل میں کیا جارہا ہے: مثال نمبر ۱ اِمام مسلم (م ۲۶۱ ھ) ، اِمام مالک (م ۱۷۹ ھ) ، اِمام ابوداؤد (م ۲۷۵ ھ) ، اِمام ترمذی (م ۲۷۹ ھ) اور اِمام نسائی رحمہم اللہ (م۳۰۳ ھ) نے روایت کیاہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قرآن مجید میں یہ حکم نازل ہوا تھا کہ حرمت رضاعت تب ثابت ہوگی جب بچے نے دس مرتبہ کسی عورت کا دودھ پیا ہو اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا اور اس کی جگہ یہ حکم نازل ہوا کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے وہ عورت بچے کی ماں بن جائے گی یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی قرآن مجید میں تلاوت کی جاتی تھی۔ اعتراض ٭ اِمام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ (م ۳۷۰ ھ)اس پرنقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : أما الحدیث عائشۃ فغیر جائز اعتقاد صحتہ علی ما ورد.... ولیس أحد من المسلمین یجیز نسخ القرآن بعد موت النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فلو کان ثابتا لوجب أن تکون التلاوۃ موجودۃ ۱۰۱؎ ’’اس حدیث کی صحت کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں کیونکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن میں نسخ کو جائز نہیں مانتا تو اگر یہ روایت درست ہوتی تو یہ آیت قرآن میں موجود ہوتی۔‘‘ |