احادیث الھدایہ اور ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)کی تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیرکا مطالعہ کیا ہے۔ اندازہ فرمائیں جب ان علماء کا یہ حال ہے تو ان فقہاء کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو احادیث کے لانے میں بڑے متساہل ہیں اور ان کی اسانید میں کوئی غوروفکر نہیں کرتے۔‘‘ یہی حال علامہ سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کا ہے کہ وہ احادیث کو ناقابل عمل بتاتے ہیں ، لیکن دلیل کے طور پر ایسی روایت پیش کردیتے ہیں ، جو غیر ثابت اور ضعیف ہوتی ہے۔ سلمۃ بن المحبق رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت، جسے علامہ سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) خلاف قیاس ہونے کی بناء پر ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں ، سرے سے ضعیف اور غیر ثابت ہے، جیسا مسند احمد (محقق) میں ہے: ’’ إسنادہ ضعیف والحسن ھو ابن أبی الحسن البصری، لم یسمع من سلمۃ ابن المحیق....‘‘۹۶؎ بنا بریں اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کا ایک غیر ثابت اور ضعیف روایت کو قیاس کے خلاف سمجھ کر ناقابل عمل قرار دینا قابل التفات نہیں ۔ مسلمات اور اصول کلیہ کے خلاف روایات ٭ اِمام ابن رشد رحمہ اللہ (م ۵۹۵ ھ)اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وأما أھل الکوفۃ فردوا ہذا الحدیث بجملتہ لمخالفۃ للاصول المتواترۃ علی طریقتہم فی رد الخبر الواحد إذا خالف الأصول المتواترۃ لکون الخبر الواحد مظنونا والأصول یقینیۃ مقطوع بہا کما قال عمر فی حدیث فاطمۃ بنت قیس: ما کنا لندع کتاب اللّٰہ وسنۃ نبینا لحدیث امرأۃ ۹۷؎ ’’ اہل کوفہ کا طریقہ یہ ہے کہ خبر واحد اگر متواتر اصولوں کے خلاف ہو تواسے رد کردیتے ہیں ، کیونکہ خبر واحد ظنی ہے اور اصول قطعی ہیں ۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہم کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ ٭ دوسری جگہ لکھتے ہیں : ویصعب رد الأصول المنتشرۃ التی یقصد بہا التأصیل والبیان عند وقت الحاجۃ بالأحادیث النادرۃ وبخاصۃ التی تکون فی عین ولذالک قال عمر فی حدیث فاطمۃ بنت قیس: لا نترک کتاب اللّٰہ لحدیث امرأۃ۹۸؎ ’’ایسے اصول جو بہت سی جزئیات کی بنیاد بنتے ہیں اور ان سے غرض بھی ایک کلی ضابطہ بیان کرنا ہوتا ہے، جن سے بوقت ضرورت استدلال کیا جا سکے، ان کو نادر احادیث اور خاص طور پر کسی مخصوص واقعہ میں مروی روایات کی بنیاد پر رد کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کے بارے میں فرمایاتھا کہ ہم کتاب اللہ کے حکم کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ اُصول کا تنقیدی جائزہ نقد روایت کے درایتی معیار کے اثبات کے لیے ’’روایت اِمام کی رائے، اجتہاد، مسلمات اور اصولوں کے خلاف نہ ہو‘‘ کے الفاظ سے جو اصول یہاں پیش کیا گیا ہے،اس سلسلے میں ہم ادبا عرض کرنا چاہیں گے کہ ’اصول سازی‘ کیا اِماموں نے خود کی ہے یا ان کے پیروکاروں نے ان کی فقہی فروع سے ان کا استخراج کیا ہے؟ دوسرا کیا آئمہ معصوم ہوتے ہیں کہ ان کی بات غلط نہیں ہوسکتی؟ وہ رسالت اور نبوت کے منصب پر تو فائز نہیں ہوتے؟ اس اصول کی دراصل بنیاد یہ ہے کہ اِمام کی فقہ بھی شریعت ہی کی طرح ایک مستقل حیثیت کی |