بنا بریں حدیث مصراۃ نہ تو قیاس صحیح کے خلاف ہے اور نہ ہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ،بلکہ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بھی مروی ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی ا س کے مطابق ہے، لہٰذا یہ حدیث قیاسی اصول کے خلاف توہوسکتی ہے، لیکن کتاب وسنت کے خلاف نہیں ،کیونکہ حدیث صحیح بنفسہ حجت ہے۔۹۲؎ مثال نمبر ۲ سلمہ بن محبّق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کی لونڈی سے مباشرت کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے مقدمہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: إن کان استکرہہا فہی حرّۃ وعلیہ لسیدتہا مثلہا وإن کانت طاوعتہ فہی لہ وعلیہ لسیدتہا مثلہا۹۳؎ ’’ اگر اس میں لونڈی کی رضا مندی شامل تھی تو اب وہ لونڈی خاوند کی ملکیت میں آگئی اور اس کے عوض میں وہ بیوی کو اس جیسی کوئی اور لونڈی دے دے اور اگر خاوند نے لونڈی کو مجبور کیا ہے تو اب وہ آزاد ہے اور اس کے عوض میں خاوند اپنی بیوی کو اس جیسی کوئی اور لونڈی دے۔‘‘ اعتراض ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) فرماتے ہیں : ’’از روئے قیاس یہ حدیث ناقابل فہم ہے لہٰذا قابل قبول نہیں ۔‘‘ ۹۴؎ جواب ٭ علامہ ابو الحسنات عبدالحئ لکھنوی رحمہ اللہ (م ۱۳۰۴ ھ)معتدل حنفی عالم ہیں ، وہ کتب فقہ حنفی میں موجود روایات کے بارے میں سچ فرماتے ہیں : نصوا علی أنہ لا عبرۃ للأحادیث المنقولۃ فی الکتب المبسوطۃ ما لم یظھر سندھا أو یعلم اعتماد أرباب الحدیث علیہا، وإن کان مصنفہا فقیھا جلیلا یعتمد علیہ فی نقل الأحکام و حکم ا لحلال والحرام ألاتری إلی صاحب ’الھدایۃ‘ من أجلۃ الحنفیۃ والرافعی شارح ’الوجیز‘ من أجلۃ الشافعیہ مع کونہما ممن یشار إلیہ بالأنامل ویعتمد علیہ الأماجدوالآماثل، قد ذکرا فی تصانیفھما مالا یوجد لہ أثر عند خبیر بالحدیث یستفسر کما لا یخفی علی من طالع’یخریج أحادیث الھدایۃ‘ للزیلعی و’تخریج أحادیث شرح الرافعی‘ لابن حجر العسقلانی، وإذا کان حال ھؤلاء الأجلۃ ھذا، فما بالک بغیرھم من الفقھاء الذین یتسباھلون فی إیراد الأخبار ولا یتعمقون فی سند الاثار۹۵؎ ’’اہل علم نے برملا کہا ہے کہ فقہ کی مشہور کتابوں میں آنے والی احادیث کا اس وقت تک اعتبار نہ کیا جائے جب تک کہ ان کی سند کا حال واضح نہ ہوجائے، یا یہ معلوم ہوجائے کہ اہل حدیث نے ان احادیث پر اعتماد کیا ہے اور اس بات کی پرواہ نہ کی جائے کہ ان کتابوں کے مصنفین بہت بڑے فقیہ ہیں جن پر نقلی احکام اور حلال و حرام کے بارہ میں اعتماد کیا جاتاہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ ’’ہدایہ‘‘ کا مصنف کتنا بڑا حنفی عالم ہے اور اسی طرح ’ الوجیز‘ کا شارح رافعی کا شمار بھی عظیم شافعی علما ء میں ہوتا ہے، لوگ ان کی طرف انگلیوں سے اشارے کرتے اور اصحاب فضیلت ان پر پورا اعتماد کرتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسی ایسی روایات کو ذکر کیا ہے جن کا، حدیث کے ماہرین کے ہاں کوئی وجود نہیں ہے او ریہ بات اس شخص پر بالکل عیاں ہے جس نے اِمام زیلعی رحمہ اللہ کی نصب الرایہ فی تخریج |