ھذا الضابطۃ لم ترد عن أبی حنیفۃ و أبی یوسف و محمد ولکنہا منسوبۃ الی عیسی بن أبان ۸۷؎ ’’صاحب المنار وغیرہ نے حدیث مصراۃ کے بارہ میں کہا ہے کہ اس کا راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے اور وہ غیر فقیہ ہے اور غیرفقیہ صحابی کی حدیث جب قیاس کے خلاف ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ قیاس کا تقاضا ہے کہ تھوڑے اور زیادہ دودھ میں نیزاونٹنی یا بکری یا گائے کے دودھ میں فرق کیا جائے، اس جیسے قیاسات کے بارہ میں ، میں (انورشاہ) کہتا ہوں کہ ایسی باتوں کو (حنفی مذہب کی) کتابوں سے نکال دینا چاہئے کوئی بھی عقلمند شخص ایسی باتوں کو (جو حدیث نبوی کے خلاف ہیں) قبول نہیں کرسکتا اور یہ قاعدہ بھی ایسا ہے جو ائمہ مذہب ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد میں سے کسی سے ثابت نہیں ، بلکہ یہ عیسیٰ بن ابان معتزلی کی طرف منسوب ہے‘‘ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)حدیث مصرّاۃ میں موجود حکم کی حکمت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’دودھ کے بدلے ایک صاع کھجور لوٹانے کی حکمت شارع علیہ السلام کے سامنے یہ ہے کہ فریقین کے درمیان جنس اور مقدار کی تعیین میں اختلاف نہ ہو۔ دودھ کے مقابلہ میں کھجور کو متعین کیاہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ جس طرح دودھ اہل مدینہ کی خوراک تھا، اسی طرح کھجور بھی اور دونوں ’مکیل‘ یعنی پیمانے سے تو لے جاتے ہیں ،گیہوں ،جواور چاول وغیرہ کے برخلاف۔ دودھ اورکھجور کو فوراً بغیر کسی مزید تیاری کے کھایا اورپیاجاتا ہے۔ اسی لئے کھجور اشیاء خوردنی میں دودھ سے قریب تر ہے ۔الغرض دودھ کے بدلہ کھجور کا ایک صاع مقرر کرنا عین قرین قیاس ہے، خلاف قیاس نہیں ۔۸۸؎ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ’فقاہت ‘ کے بارہ میں بعض کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں جن کے مطالعہ سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقاہت میں بھی بلند مرتبہ پر فائز تھے اور یہ کیوں نہ ہو جبکہ ان کا شب و روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں گزرتا تھا۔ ٭ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م ۱۳۵۲ ھ)ان حنفی حضرات کو جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہوئے جری ہیں ، کو ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں: حکی أنہ وقع مناظرۃ بین حنفی و شافعی فی مسجد رصافۃ فی بغداد فی مسئلۃ المصراۃ فقال الحنفی لم یکن أبوہریرۃ قابل الاجتہاد ولم یکن فقیہا إذا سقط علیہ حیۃ الأسود فکان الحنفی یعدوولا تدعہ الحیۃ فقیل لہ استغفر من قولک فاستغفر فترکہ الحیۃ ۸۹؎ ’’منقول ہے کہ مسئلہمصرّاۃ پربغداد کی مسجد رصافہ میں ایک حنفی اور شافعی کے درمیان مناظرہ ہوا، حنفی عالم نے کہا اس حدیث کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے اور نہ ہی اجتہاد کرنے کے قابل تھے، بس یہ کہنا تھاکہ اچانک اس حنفی پر کالا ناگ گرا جس کی وجہ سے حنفی عالم نے دوڑ لگا دی، لیکن سانپ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا، لوگوں نے کہا اپنے بہتان سے توبہ کرلے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے، اس نے توبہ، استغفار کی تب سانپ نے اس کا پیچھا چھوڑا۔‘‘ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس قسم کی زبان درازی ہی کے ضمن میں اِمام ابن السمعانی رحمہ اللہ (م ۴۸۹ ھ) بھی فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذات کو مورد الزام ٹھرانا اس کے فاعل کی رسوائی کی علامت اور بدعت وضلالت ہے۔‘‘۹۰؎ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حنفی حضرات کے نزدیک فقیہ صحابی ہیں اور ان کے بقول ان کی فقہ کی بنیاد ان کے اقوال پر ہے، اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)نے ان کے فتوی کو اپنی صحیح میں حدیث المصراۃکے فوراً بعد نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں : عن عبد اللّٰہ بن مسعود قال من اشتری شاۃ محفلۃ فردھا فلیرد معہا صاعامن تمر۹۱؎ ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص ایسی بکری خریدے جس کا دودھ تھنوں میں روک لیا گیا ہو اور اسے واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں بھی دے۔‘‘ |