پر سب علماء کااتفاق ہے۔ چند روایات سے’ فقہ راوی‘ کے اصول کا جائزہ احناف کے مذکورہ اس اصول کی تشریح میں اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) نے درج ذیل روایات کو بطور مثال پیش کیا ہے: مثال نمبر ۱ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من اشتری غنما مصراۃ فاحتلبہا فإن رضیہا أمسکہا وإن سخطہا ففی حلبتہا صاع من التمر)) ۸۴؎ ’’اگر کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کا دودھ گاہک کودھوکا دینے کے لئے کئی دنوں سے نہیں دوہا گیا تھا تو اگر وہ اس کو رکھنے پر راضی تو درست، ورنہ جانور کو واپس کردے اور استعمال شدہ دودھ کے بدلے ایک صاع کھجوریں دے۔‘‘ اعتراض ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کہتے ہیں : ’’یہ روایت ہرلحاظ سے قیاس صحیح کے مخالف ہے کیونکہ استعمال شدہ دودھ کے تاوان کے طور پر یا تو اتنی ہی مقدار میں دودھ دینا چاہئے اور یا اس کی قیمت ہر حالت میں ایک صاع کھجوروں کا تاوان دینے کی کوئی ُتک نہیں ہے۔‘‘ ۸۵؎ جواب اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کا یہ کہنا کہ ’’ حدیث مصراۃ ہر لحاظ سے قیاس صحیح کے مخالف ہے، کیونکہ استعمال شدہ دودھ کے تاوان کے طور پر یا تو اتنی ہی مقدار میں دودھ دینا چاہئے یا اس کی قیمت ‘‘ غیر معقول ہے۔ ٭ اس ضمن میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)فرماتے ہیں : فان الحری ضمن فی دیتہ بالإ بل ولیست مثلا ولا قیمۃ ۸۶؎ ’’آزاد مسلمان کو قتل کردینے کی دیت سو اونٹ رکھی گئی ہے حالانکہ سو اونٹ مسلمان کا مثل ہیں نہ اس کی قیمت۔‘‘ باقی رہا کہ علمائے احناف یہ سمجھتے ہیں کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ مصرّاۃ کے قلیل و کثیر دودھ میں فرق ہونا چاہئے، جبکہ اس حدیث میں ہر حال میں ایک صاع کھجوریں دینے کا حکم ہے جوکہ قیاس کے خلاف ہے، ان کا یہ دعویٰ بھی غلط فہمی پر مبنی ہے، کیونکہ شریعت نے فصل نزاع کے لئے ایک صاع کھجوریں مقرر کی ہیں ، اس لئے کہ وہ دودھ جو مصراۃ کی بیع کے بعد پیدا ہوتا ہے وہ اس دودھ سے خلط ملط ہوجاتا ہے جوبیع کے وقت جانور کے تھنوں میں موجود ہوتا ہے۔ اگر اس کا فیصلہ بائع اور مشتری پر چھوڑ دیا جاتا، تو ان میں اس بارہ میں اختلاف اور نزاع شدت اختیار کرجاتا، بنابریں شریعت نے ایک صاع کھجور کی حد مقرر کردی ہے تاکہ دونوں اس کے پابند ہوں اور اس حد سے تجاوز نہ کریں ۔ ٭ محقق علمائے احناف میں سے علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ (م ۱۳۵۲ ھ)فرماتے ہیں: وأما ما ذکر صاحب المنار وغیرہ من أن حدیث المصراۃ یرویہ ابوہریرۃ وھو غیر فقیہ و روایۃ الذی لیس بفقیہ غیرمعتبر إذا کانت خلاف القیاس والقیاس یقتضی بالفرق بین اللبن القلیل والکثیر ولبن الناقۃ أوالشاۃ أوالبقرۃ وغیرھا من الأقیسۃ فأقول إن مثل ھذا قابل الاسقاط من الکتب فانہ لا یقول بہ عاقل وأیضا |