Maktaba Wahhabi

208 - 432
تبصرہ ٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ حقیقت یہ ہے کہ اپنے اس اصول پر عمل کرنے میں وہ تضاد کا شکار ہیں کیونکہ: 1۔ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول اس ناقابل اعتبار روایت کو تو لے لیا ہے کہ معتوہ یعنی بے عقل کی طلاق کے سوی ہر طلاق جائز ہے اور انکے اس فتوی کو چھوڑ دیا ہے کہ مکراہ (یعنی جس پر جبر کیا جائے) اور تکلیف دئیے جانے والے کی کوئی طلاق نہیں ۔ 2۔ اسی طرح انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو تو لے لیا کہ نماز دو دو رکعت فرض کی گئی اور صحیح روایات میں ان کے اس عمل کو چھوڑ دیا کہ انہوں نے سفر میں پوری یعنی قصر کے بغیر نماز پڑھی۔ 3۔ اسی طرح انہوں وہ ناقابل التفات حدیث تو لے لی، جس کے راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور ابو موسی رضی اللہ عنہ ہیں ، جس میں نماز میں قہقہہ سے وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن صحیح روایات میں ان کے اس قول کو چھوڑ دیا کہ قہقہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 4۔ اسی طرح انہوں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول اس ضعیف حدیث کو لے لیا کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ہے، لیکن صحیح روایت میں منقول ان کے اس فتوی کو چھوڑ دیا کہ ہر کم یا زیادہ مقدار والے مہر سے نکاح ہوجاتا ہے۔ ان کے علاوہ ان کے تضاد کی اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔ ‘‘ ۶۶؎ 5۔ وہ روایات جن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استدلال نہیں کیا ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : إما أن .... یکون حدیثا قد أعرض عنہ الأئمۃ من الصدر الأول بأن ظہر منہم الاختلاف فی تلک الحادثۃ ولم تجر بینہم المحاجۃ بذالک الحدیث۶۷؎ ’’(روایت پر اس صورت میں بھی عمل نہیں کیا جائے گا، جبکہ) کوئی ایسی حدیث ہو جس سے صدر اول کے آئمہ نے اعراض کیا ہو ، یعنی ان کے مابین اس مسئلہ کے بارے میں بحث ہوئی ہو لیکن اس حدیث سے انہوں نے استدلال نہ کیا ہو۔‘‘ اصول کا تنقیدی جائزہ روایت وخبر اگر ثابت ہوجائے تو علم روایت کا اصول یہ ہے کہ روایت ثابت ہوگئی ہے، چاہے اس پر بعد میں عمل ہو یا نہ، کسی کو اس کا مفہوم سمجھ آئے یا نہ، اس سے صحابی نے استدلال کیا ہو یا نہ، عقل وقیاس کے خلاف ہو یانہ، راوی خود اس پر عامل ہو یا نہ، راوی اس کے مطابق فتویٰ دے یانہ، عموم بلویٰ نے اس کی روایت کی ہو یانہ، کسی معاشرے کے خاص افراد اس پر عمل کریں یا نہ مثلاً عمل اہل مدینہ، جو مرضی شکل پیش آجائے بہرحال وہ روایت ہے اور ثابت ہے۔ اس کے معنی سے اختلاف ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کہ اس پر اجماع نہ ہو، بہرحال وہ روایت ہی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین کے ہاں مختلف الحدیث میں اگر روایتوں میں جمع یا ترجیح وغیرہ کی صورت ممکن نہ ہو، تو روایتیں ثابت رہیں گی، البتہ ان کے معانی پر عمل کرنے سے رک جائیں گے۔ اسے اصطلاحا ’توقف‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح نسخ کے باوجود روایت، روایت رہتی ہے اگرچہ اس پر عمل منسوخ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی تمام روایتیں دیگر معمول بہا روایات کے ساتھ محدثین بشمول بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) ومسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ ھ) اپنی کتب میں بیان کرتے ہیں ، لیکن یہ اصول بنانا کہ جب مروی کے
Flag Counter