نے صراحۃً الماخوذۃ،المستنبطۃ، المتحصلۃ وغیرہ الفاظ بھی بولے ہیں ، جن سے صاف ظاہر ہے کہ فقہ انسان کی اس کی سمجھ کانام ہے جو انسان شریعت سے اپنے بہترین فہم کے مطابق اخذ کرتا ہے۔الغرض قرآن و سنت ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ، جبکہ فقہ ماخوذ از شریعت ہوتی ہے چنانچہ اسے قطعا حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا، البتہ مجتہدکے لیے عمل کرنے کے لیے وہ حجت ہے کیونکہ مجتہدین کے لئے ان کا اجتہاد حجت ہے اور وہ اسی کے مکلف ہیں ۔ وہ اسی کے مطابق فتویٰ دیں گے اور عمل کریں گے، لیکن وہ شریعت نہیں بلکہ انسان کا شریعت سے اخذ شدہ فہم ہے۔ اسی نکتہ کی وضاحت صحیحین کی اجتہاد سے متعلقہ مشہور روایت موجود ہے کہ اگر قاضی و جج سے اپنے اجتہاد میں غلطی ہوجائے تو باوجود غلطی کے اس کی محنت کا ایک اجر اس کے لئے پھر بھی ثابت ہو جاتا ہے۔۶۴؎ واضح ہوگیا کہ اگر ا س کا اجتہاد شریعت ہوتا تو اس میں غلطی کا احتمال نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں یہ بات کسی طرح ممکن نہیں کہ ایک روایت بالکل صحیح ہو لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر اپنی زندگی میں عمل نہ کرسکے ہوں اور یونہی کئی صدیاں گذر جائیں اور اس روایت پر عمل کرنے یا اس سے استدلال کرنے کی نوبت تک نہ آئی ہو۔ دراصل صحابی کے جس فتوی کو ہم خلاف روایت سمجھ رہے ہوتے ہیں ، وہ خود ہمارے نقص فہم کی دلیل ہوتی ہے کیونکہ استدلال میں کبھی بھی ایک روایت سامنے رکھ کر فتوی نہیں دیا جاتا، بلکہ مجموع روایات سے حاصل شدہ نتیجہ پر عمل کیا جاتا ہے، جوکہ بسا اوقات صرف ایک روایت کے تناظر میں دیکھا جائے تو خلاف شریعت معلوم ہوتاہے، ورنہ مجموعہ روایات کی نسبت سے وہ خلاف حدیث نہیں ہوتا۔ مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ کسی حدیث سے استدلال کرنا یا نہ کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ مروی شے کا محض روایت کی بنیاد پر ہی شریعت ہونا ثابت ہوجاتا ہے اور اس بات سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ کسی دور میں اس روایت سے استدلال بھی کیا گیا ہے کہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بعض مجتہدین یا قضاۃ کسی روایت سے استدلال کرتے وقت خطا کھا جائیں تو غلطی کے باوجود روایت کی بنیاد پر شرعی حکم اپنی اصل پر بر قرار رہتا ہے اور استدلال کی غلطی کی وجہ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ چند روایات سے مذکورہ اصول کی وضاحت 1۔ اس اصول کے تحت علمائے احناف جن احادیث کو چھوڑا ہے ان میں صحیحین کی یہ روایت بھی شامل ہے کہ جس میں ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ کسی برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو اسے سات مرتبہ دھویا جائے۔ علمائے احناف نے صحیحین میں مروی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا ہے کہ خود راوی حدیث کا فتوی ان کی مروی حدیث کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کا اس بارے میں فتوی یہ ہے کہ جس برتن کو کتا منہ لگا جائے تو تین بار دھونے سے وہ برتن پاک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ کے فتوی کو ان کی روایت پر ترجیح دی جائے گی۔ ۶۵؎ 2۔ اسی طرح صحیحین میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: لا نکاح إلا بولی۔ علمائے احناف نے اس حدیث کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی مروی حدیث میں عورت کے نکاح کے لیے سرپرست کو لازم قرار دے رہی ہیں جبکہ ان کا اپنا عمل اس حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نکاح خود اپنی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر کردیا تھا۔ لہٰذا یہ حدیث ناقابل قبول ہے، کیونکہ ہمارے مقررہ اصول کے مطابق اعتبار راوی کی رائے کا ہوتا ہے، ناکہ اس کی مروی حدیث کا۔ |