Maktaba Wahhabi

206 - 432
جواب اس موضوع سے متعلق وارد ہونے والی تمام روایات کے حوالے سے اجمالا عرض ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوء ٹوٹنے کا معاملہ منسوخ ہے اور اس کا نسخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ہی ثابت ہے۔ اس لیے منسوخ حدیث کو عموم بلوی کی مثال میں پیش کرکے اس سے اپنے اصو ل درایت کو ثابت کرنا کمزور موقف ہے۔ نوٹ: اس روایت پر تفصیلا بحث استدراکات ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ضمن میں چھٹے باب کی پہلی فصل میں آئے گی۔ ان شاء اللہ اپنے ہی اصولوں کی مخالفت ٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’احناف نے اپنے اس اصول کے تحت بہت سی صحیح احادیث کو چھوڑکردیا ہے،جیسے نماز میں رفع الیدین کی احادیث اور بغیر رکاوٹ کے شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ضروری ہوجانے کی حدیث، لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس نوع سے متعلق بہت سی احادیث کو قبول بھی کیا ہے، جیسے وتر کے واجب ہونے کی حدیث اورنماز میں قہقہہ لگانے سے وضو کے ضروری ہوجانے کی حدیث، حالانکہ ان سب کا تعلق بلوائے عامہ سے ہے۔ ‘‘ ۵۹؎ ٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں : ’’ مذکورہ دونوں (قسم کی احادیث) کی نوعیت الگ الگ بتانے میں علمائے احناف کو سخت محنت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ علمائے اصول اور علمائے حدیث کی اکثریت بلوائے عامہ سے متعلق حدیث کو قبول کرتی ہے، اگر اس کی سند صحیح ہو۔‘‘ ۶۰؎ 4۔ صحابی کا فتوی اس کی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہو اس بارے میں علمائے احناف کا اصول یہ ہے: العبرۃ بما رأی لا بما روی۶۱؎ ’’یعنی اعتبار راوی کی رائے کا ہوتا ہے، ناکہ روایت کا۔‘‘ اصول کا تنقیدی جائزہ ٭ اصول فقہ کی مشہور کتاب الوجیزفی أصول الفقہ کے معتدل حنفی مصنف ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ اس مذکورہ اصو ل پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جب ایک حدیث کی روایت صحیح ہو یعنی اس کو عادل، معتبر اور ان لوگوں نے روایت کیا ہو، جن کا حافظہ قوی ہو تو اس کا اتباع کرنا، اس کو قبول کرنا اور اس سے احکام مستنبط کرنا ہم پر لازم ہے، خواہ یہ عمل اہل مدینہ کے موافق ہو یا مخالف، خواہ یہ مقررہ اصول اور قیاس کے تقاضے کے مطابق ہو یا نہ ہو، خواہ اس کے راوی کااس پر عمل ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ کسی ایسے واقعہ کے بارے میں ہو جو کثرت سے پیش آتا ہے یا کبھی کبھی ، اہل مدینہ کا اتفاق کوئی حجت نہیں کیونکہ وہ کل امت نہیں بلکہ امت کا ایک جزء ہیں ۔‘‘ ۶۲؎ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اصول صحیح یوں ہے:العبرۃ بما روی لا بما رأی یعنی اعتبار راوی روایت کا ہوگا، اس کے فتوی وتفقہ کا نہیں ، کیونکہ روایت اگر ثابت ہو تو وہ نتیجۃ شریعت قرار پاتی ہے، جبکہ کسی فتوی اسکا اپنا فہم ہوتا ہے، جسے سو فیصد مبنی بر صواب ہونے کے باوجود کسی طور پر بھی شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ یہ انسان کا ذاتی فہم ہوتا ہے، جس بہرحال غلطی کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کی تمام کتب میں فقہ کی تعریف میں المکتسبۃ من ادلتہا التفصیلیہ۶۳؎ کے الفاظ موجود ہیں ،جبکہ بعض اصولیین
Flag Counter