Maktaba Wahhabi

170 - 432
تسبیحہ قسم علی أھل الارض لأصاب کل واحد منھم عشرۃ اضعاف الدنیا)) ۱۸۹؎ ’’اگر امیر کو علم ہو جائے کہ اللہ کے ذکر میں اس کے لیے کس قدر ثواب ہے تو وہ امارت چھوڑ دے ، اگر تاجر کو علم ہو جائے کہ اللہ کے ذکر میں اس کے لیے کتنا ثواب ہے تو وہ تجارت چھوڑ دے اور اگر اس کی ایک تسبیح کا ثواب اہل زمین پر تقسیم کر دیا جائے تو ہر ایک کو دنیا کے دس گنا برابر ثواب پہنچ جائے ۔ ‘‘ ٭ جس روایت میں معمولی گناہ پر بہت بڑی وعید کا ذکر ہو ۱۹۰؎ ٭ اس کی مثال وہ روایت ہے جس میں ہے: ((من نظر الی عورۃ أخیہ المسلم متعمدا لم یقبل اللّٰہ صلاتہ أربعین یوما)) ۱۹۱؎ ’’ جس نے جان بوجھ کر اپنے مسلمان بھائی کی شرمگاہ کی طرف دیکھا تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرے گا ۔ ‘‘ ٭ اس کی ایک دوسری مثال یہ ہے: ((من قرض بیت شعر بعد العشاء الآخرۃ لم تقبل لہ صلاۃ تلک اللیلۃ)) ۱۹۲؎ ’’جس نے عشاکے بعد کوئی شعر کہا تو اس رات اس کی کوئی نماز قبول نہیں ہو گی ۔ ‘‘ نوٹ: کیا علامات کی بنا پر حدیث کے صحت وضعف کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے بینۃ اور حتمی دلیل ضروری ہے، اس ضمن میں مفصل بحث باب اَول کی فصل ثالث میں ’درایت قضائی‘ اور باب سادس کی دوسری فصل میں بھی مذکور ہے۔ خلاصہ باب فقہ اور حدیث کی باہمی کشمکش کے ضمن میں متاخرین کے ہاں افراط وتفریط پیدا ہوگئی ہے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو ’اصول درایت‘ کا نام لے کر سند سے قطع نظر تحقیق کے دعوی کے ساتھ ہر اس حدیث کو جو اس کے ذہنی معیار سے اونچی ہو، خلاف قرآن یا خلاف عقل کہہ کر رد کردیتا ہے۔ اس کے بالمقابل رد عمل میں محدثین رحمہم اللہ کی طرف منسوب ایک کمزور طبقہ تحقیق روایت میں متن کی کسی تحقیق کا قائل ہی نہیں ، جس کی وجہ سے معلوم نہیں کہ کس کس قسم کی بے تکی روایات کو بھی دین بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اس ضمن میں علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’حدیث کا درایتی معیار‘ میں خصوصا ’’نقدو تحقیق میں افراط وتفریط کے دو گروہ‘‘ کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں : ’’شعور نبوت کا یہ خاص ادراک ومشاہدہ تسلیم کرنے کے بعد اس سے نکلی ہوئی بات (حدیث) عام لوگوں سے ممتاز اور اس کی نقدوتحقیق کا پیمانہ دوسروں کے پیمانہ سے یقینا مختلف ہوگا، ورنہ نبی اور غیر نبی کی کلام میں فرق وامتیاز قائم نہ رہ سکے گا، لیکن بدقسمتی سے حدیث کی نقدوتحقیق میں بھی افراط وتفریط نے دو گروہ پیدا کردیے، جنہوں نے نبوت کی قدرو منزلت نہیں پہچانی: 1۔ ایک گروہ نے کلام نبوت( حدیث) کو چانچنے کے لیے اسی پیمانہ سے کام لیا، جو عام لوگوں کے کلام کو چانچنے کے لیے مقرر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ہر ایسی حدیث کا انکار کردیا جس میں کوئی علمی حقیقت بیان ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ میں وہ مشہور نہ تھی یا کوئی خوشخبری جو مستقبل سے متعلق تھی، جس کا ابھی وقت نہ آیا تھا، یا قانونی کلیہ و حکمت کا اصول بیان ہوا تھا، تو اس وقت کی ذہنی سطح سے بلند تھا ، اگرچہ بعد میں اس کا رواج ہوگیاحالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب وحی تھے۔ اسرار غیب سے بھی ایک حد تک واقف تھے۔ علم وحکمت کی ترویج اور قانون وشریعت کا نفاذ آپ کا خاص مشن تھا۔ اس لیے اگر آپ نے کوئی بات ذہنی سطح سے بلند کہی یا قانون واصول اس انداز سے بیان کیے جو بعد میں فلسفہ یا قانونی کلیہ کے مشابہ قرار پائے تو اس سے نہ شان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آتا ہے اور نہ کسی مقنن اور فلسفی سے متاثر ہونے کا سوال اٹھتا ہے۔ 2۔ دوسرے گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف منسوب جوبات بھی دیکھی اس کو حدیث قرار دینے میں دین ومذہب کی سب سے بڑی
Flag Counter