خدمت سمجھ لیا، خواہ اس کی خاطر کتنی ہی دور دراز تاویل کرنی پڑے اور معیار نبوت صلی اللہ علیہ وسلم گر کر کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ)نے بھی اپنی معروف کتاب الموضوعات میں باقاعدہ ایک فصل قائم کرکے اس گروہ کے بارے میں ریمارکس دے کر سخت ماتم کیا ہے۔‘‘ ۱۹۳؎ ان دونوں رویوں کی اصلاح کی ضرورت ہے اوردونوں انتہاؤں میں اعتدال ضروری ہے۔ واﷲ ولي التوفیق تتمہ : 1۔ ’اہل درایت‘ جس آیت کریمہ کو نقد ِروایت کے درایتی تصور کے اثبات کے لیے عام طور پر پیش کرتے ہیں ، وہ یہ ہے: ﴿لَوْلَا إذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِأَنْفُسِہِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ہَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ﴾ ۱۹۴؎ اس آیت کریمہ سے’اہل درایت‘ کا اپنے اصولِ درایت پر دلیل تراشنا عجیب ہے، کیونکہ جس آیت کو انہوں نے نقد ِروایت کے درایتی تصور کے اثبات کے لیے پیش کیا ہے وہ ’اصول ِدرایت‘ کی دلیل کے بجائے اس طریقہ تحقیق کے رد اور خبر کو ’اصول روایت‘ سے پرکھنے کی دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں چند پہلو درج ذیل ہیں : 1۔ مذکورہ آیت کریمہ کو رب ذوالجلال نے واقعۂ افک کے ضمن میں پیش فرمایا ہے۔عربی زبان میں افک بہتان کو کہتے ہیں جس کی کوئی سند نہیں ہوتی۔ 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اس بہتان کو باندھنے والوں نے نہ صرف یہ کہ مشاہدہ سے اس بات کو اخذ نہ کیا تھا، بلکہ انہوں نے تہمت لگاتے ہوئے چار گواہیاں بھی پیش نہ کی تھیں ۔ 3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پاکیزہ انسان کی بیوی ہونا اس پر مستزاد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ اَلطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبَاتِ﴾ لہٰذا ایسی بات کو سنتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رد نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اس وجہ سے نہیں کہ یہ بات اپنے مضمون کے اعتبار سے محل نظر ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ ایسی (بے سندی) تہمت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ بیوی پر بغیر شرائط پوری کیے لگایا جارہا ہے اور مسلمانوں میں سے بھولے بھالے لوگ ان امور پر غور نہیں کررہے۔ چنانچہ یہ روایت’بے سند‘ ہونے کے اعتبار سے ضعیف قرار پائی۔مزید برآں اس واقعہ کو چار گواہوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سنتے ہی رد کردینا چاہیے تھا۔ 2۔ ’اَہل درایت‘ جن دیگر آیات و احادیث (جو کہ اس باب کے آغاز میں ذکر کردی گئی ہیں ) کا حوالہ دے کر اپنے درایتی اصولوں کا اثبات کرتے ہیں ، ان تمام کے بارے میں اتنا عمومی جائزہ کافی ہے کہ مذکورہ اقوال ائمہ کی طرح یہ تمام آیات واحادیث بھی دراصل ضعیف یا موضوع احادیث کو پہچاننے کی علامات کے ضمن میں شریعت مطہرہ میں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ان کو پیش کرکے سند سے قطع نظر نقد متن کا اثبات کسی صورت ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ........٭٭٭........ |