2۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ ﴾ ۱۴۰؎ ’’بلاشبہ قیامت کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے ۔ ‘‘ ٭ جو روایت صراحتِ سنت کے خلاف ہو ۱۴۱؎ ٭ اس کے ذیل میں وہ تمام روایات آئیں گی جن میں فتنہ وفساد، ظلم وزیادتی اور باطل کی تعریف اور حق کی مذمت بیان ہوئی ہو ۔ اس کی مثال وہ روایت بھی ہے جس میں ہے کہ ’’دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ساتویں ہزار میں ہیں ۔ ‘‘ ۱۴۲؎ یہ روایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اس صحیح وصریح حدیث کے خلاف ہے کہ ’’وقوعِ قیامت کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ۔ ‘‘ ۱۴۳؎ ٭ اس کی دوسری مثال وہ روایت ہے جس میں ہے: (( إن الناس یوم القیامۃ یدعون بأمھاتھم لا بآبائھم)) ۱۴۴؎ ’’روز ِقیامت لوگوں کو ماؤں کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا باپوں کے ناموں کے ساتھ نہیں ۔ ‘‘ ٭ اس کی ایک اور مثال یہ روایت ہے : (( إذا دعت أحدکم أمہ وھو فی الصلاۃ فلیجب وإذا دعاہ أبوہ فلا یجب)) ۱۴۵؎ ’’اگر کسی کو اس کی ماں دورانِ نماز بلائے تو وہ اس کے پاس جائے اور اگر کسی کو اس کا باپ بلائے تو وہ نہ جائے ۔ ‘‘ ٭ جو روایت قرآن وسنت کے عمومی قواعد کے خلاف ہو۱۴۶؎ ٭ اس کی مثال یہ روایت ہے: (( إن الرجل لیکون من أھل الصلاۃ والجہاد وما یجزی الا قدر عقلہ)) ۱۴۷؎ ’’ آدمی نمازی بھی ہوتا ہے اور مجاہد بھی مگر روز ِقیامت اسے بدلہ عقل کی مقدار پر ملے گا ۔ ‘‘ ٭ اس کی ایک دوسری مثال یہ ہے: ((إذا جلس المتعلم بین یدی العالم فتح اللّٰہ علیہ سبعین بابا من الرحمۃ ولا یقوم من عندہ إلا کیوم ولدتہ أمہ وأعطاہ اللّٰہ بکل حرف ثواب ستین شھرا وکتب اللّٰہ بکل حدیث عبادۃ سنۃ)) ۱۴۸؎ ’’جب طالب علم عالم کے سامنے بیٹھتاہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ستر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور وہ اس کے پاس سے اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر اٹھتا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو اور اللہ تعالیٰ اسے ہر حرف کے بدلے ساٹھ مہینوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور اس کے لیے ہر حدیث کے بدلے ایک سال کی عبادت لکھ دیتا ہے ۔ ‘‘ اس روایت کو ملا علی قاری رحمہ اللہ (م ۱۰۱۴ھ)نے فی معرفۃ الحدیث الموضوع ۱۴۹؎ میں ،اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ھ)نے الفوائد المجموعۃ۱۵۰؎ میں ، اِمام عجلونی رحمہ اللہ (م ۱۱۶۲ھ)نے کشف الخفاء۱۵۱؎ میں اور ابو الحسن علی بن محمد رحمہ اللہ (م ۹۶۳ھ) نے تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ۱۵۲؎ میں بھی نقل کیا ہے ۔ ٭ جو روایت اجماعِ امت کے خلاف ہو ۱۵۳؎ اس کی مثال ہر وہ روایت ہے جس میں علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے یاخلیفہ بلافصل ہونے کا ذکر ہے، کیونکہ امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے بعد کسی کے خلیفہ ہونے کے بارے میں بھی صراحتاً کچھ نہیں فرمایا تھا ۔ ٭ جو روایت عقلِ عام کے خلاف ہو ۱۵۴؎ |