Maktaba Wahhabi

156 - 432
پرکھنے کے اسالیب ان کے ہاں سو فیصد ایک جیسے نہیں بلکہ خبرمیں رواۃ کی بنیادی حیثیت کی وجہ سے راوی اور سند تو تحقیق میں ’اساس‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ شذوذ وعلت کی تحقیق اگرچہ اپنے درمیانی مراحل کے اعتبار سے براہ راست متن ہی سے متعلق ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائے تحقیق کے اعتبار سے یہ دونوں آخری اصول بھی درحقیقت رواۃ اور سند ہی کی طرف راجع ہوتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ذیل میں اسی موضوع پر محدثین کرام رحمہم اللہ اور اصولیوں رحمہم اللہ کے موقف کی روشنی میں یہ تجزیہ پیش کریں کہ نقد روایت کی اساسی شرائط صرف تین ہی ہیں ۔ تاہم اس موضوع پر کچھ کہنے اور لکھنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ’فن حدیث‘ سے متعلقہ بعض اہم مباحث کواس موضوع کی تمہید کے طور پر پہلے ذکر کردیا جائے، تاکہ موضوع زیر بحث کو مکمل واضح کیا جاسکے۔ معمول بہ صحیح روایت اور غیر معمول بہ صحیح روایت کا فرق محدثین کر ام رحمہم اللہ صحیح حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں : 1۔ معمول بہ صحیح روایت، یعنی قابل استدلال اور قابل عمل 2۔ غیر معمول بہ صحیح روایت، یعنی ناقابل استدلال اور ناقابل عمل غیر معمول بہ صحیح روایات کا اطلاق محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں درج ذیل قسم کی روایات پر کیا جاتا ہے: 1۔ منسوخ روایت 2۔ مرجو ح روایت 3۔ متوقف علیہ روایت ۱۰۰؎ جبکہ دیگر تمام قسم کی روایات یعنی جن روایات میں باہم تعارض نہ ہو، معمول بہاہوں گی۔۱۰۱؎ اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م۱۲۵۰ھ) إرشاد الفحول میں اس دعوی کہ صحیحین میں کوئی بھی روایت ضعیف نہیں ہے،کے متصل بعد فرماتے ہیں : لانزاع فی أن الخبر الواحد إذا وقع الاجماع علی العمل فإنہ یفید العلم لان الاجماع علیہ قد صیرۃ من المعلوم صدقہ،ومن ھذا القسم احادیث الصحیحین فان الامۃ تلقت ما فیھما بالقبول ومن لم یعمل بالبعض من ذالک فقد اوّلہ والتاویل فرع القبول ۱۰۲؎ ’’ اہل فن کے ہاں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب خبر واحد کے معمول بہ ہونے پر اجماع ہوجائے تو وہ بھی خبر متواتر کی مثل علم کا فائدہ دیتی ہے کیونکہ اجماع اس کے بارے میں متعین کردیتا ہے کہ وہ یقینی طور پرسچی ہے۔ اسی قسم میں صحیحین کی احادیث ہیں ، امتِ معصومہ نے ان دونوں کتابوں میں موجود تمام روایات کو شرف قبولیت سے نوازا ہے۔ اور جن آئمہ نے صحیحین کی بعض روایات کو معمول بہ نہیں جانا وہ ان روایات میں تاویل کرتے ہیں اور جاننا چاہیے کہ تاویل قبولیت کی ہی فرع ہے۔‘‘ اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ھ)کی مذکورہ عبارت سے صاف واضح ہے کہ صحیحین کی صحت پر پوری امت کا اجماع ہے، البتہ صحیحین کی بعض روایات معمول بہا نہیں ، چنانچہ اس قسم کی روایات آئمہ کے ہاں صحیح تو ہیں البتہ معمول بہا نہیں ۔ نیز فقہاء کرام رحمہم اللہ کا ان غیر معمول بہا روایات کے بارے میں بحث کرنا دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ محدثین رحمہم اللہ کے کام پر اعتماد کرتے ہوئے ان روایات کی صحت کو قبول کرتے ہیں ، کیونکہ تاویل کی طرف جانے کا حتمی معنی ہی یہ ہے کہ ان کے ہاں یہ روایات صحیح تھیں ، ورنہ ان کے بارے میں یہ
Flag Counter