8۔ سیاق حدیث کا انکار حدیث کا سیاق حدیث ہونے سے انکار کردے۔ جیسے معمر عن الزھری عن أبی سلمۃ عن جابر فرماتے ہیں کہ ’’انما جعل رسول اللّٰہ الشفعہ فما لم یقسم فإذا قسم أو وقعت الحدود فلا شفعۃ‘‘،اب یہاں وقعت الحدیث فلاشفعۃ ایک الگ اور مستقل کلام ہے۔ 9۔ واسطے کی صراحت کسی راوی کے شیخ کی بیان کردہ تمام روایات کو جمع کرلیاجائے پھر اگر راوی ان روایات کے علاوہ کوئی روایت بیان کرے تو دیکھیں گے اس واسطے کی صراحت ہے یا نہیں ۔ اگر صراحت نہ وہ تو روایت غیرمتصل ہوگی۔ مثال:ابن مدینی رحمہ اللہ (م ۲۳۴ھ) عن قیس بن أبی حازم کے بارے میں جو روایات ابن مدینی رحمہ اللہ (م ۲۳۴ھ) نے قیس سے لی ہیں انہیں جمع کرلیا جائے۔ 10۔ کثرت ممارست فنی ذوق حذاق محدثین رحمہم اللہ میں کثرت ممارست اور رجال کی معرفت اور احادیث کے مفاہیم پر مکمل عبور اور اللہ کی خاص عنایت کی بنا پرایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے جس کی بنا پر وہ روایت کے اندر علت کو جانچ لیتے ہیں ۔ ٭ حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ (م ۷۹۵ھ)نے ذکر فرمایا ہے: حذاق النقاد من الحفاظ لکثرۃ ممارستھم للحدیث ومعرفتھم للرجال وأحادیث کل واحد منھم لھم فھم خاص یفھمون بہ ان ھذا الحدیث یشبہ حدیث فلان ولا یشبہ حدیث فلان فیعللون الاحادیث بذلک۔ ’’نقاد حفاظ ِحدیث کو حدیث سے کثرت ِممارست ، معرفت ِرجال اور ان میں سے ہر ایک کی احادیث کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص قسم کا فہم حاصل ہو جاتا ہے جس کے ذریعے وہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ حدیث فلاں کی حدیث کے مشابہ ہے اور یہ فلاں کی حدیث کے مشابہ نہیں ، پس اس طرح سے وہ احادیث کو معلول قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘ ۹۸؎ مثال: اِمام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ) فرماتے ہیں عبد اللہ بن عبد المالک رحمہ اللہ ، یزید بن رومان رحمہ اللہ (م ۱۳۰ھ)اور اہل مدینہ العجائب کے بارے میں فرماتے ہیں اس کی حدیث ثقات کے مشابہ نہیں ہوسکتی۔۹۹؎ نوٹ: اِمام حاکم رحمہ اللہ (م ۴۰۵ھ)نے بھی ادراکِ علت کے سلسلے میں یہی دس قواعد بیان کئے ہیں ، جن کی تلخیص امام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ھ) نے تدریب الراوی میں صفحہ ۱۶۷ سے لے کر صفحہ ۱۶۹ پر کی ہے۔ خبر مقبول میں شاذ اور علت کی شرائط کی نوعیت محدثین کرام رحمہم اللہ نے بلا شک وشبہ کسی حدیث کی صحت چانچنے کے لیے سند ومتن ہر دو کی ضروری تحقیق کا اہتمام فرمایا ہے اور ان کی خبر مقبول کی تعریف میں موجود شرائط خمسہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ ان دونوں اجزاء کو |