سے کچھ بھی نہیں پہنچا، چنانچہ اگر اِمام زہری رحمہ اللہ (م ۱۲۵ھ) کے پاس عن عروۃ عن عائشۃ والی روایت ہوتی تو یوں نہ فرماتے۔۹۵؎ 5۔ راوی کا عدم ِ سماع، لیکن شیخ کی کتاب سے روایت اگر راوی شیخ سے خود نہ سنے بلکہ شیخ کی کتاب سے نقل کرے، تو بھی حدیث معلول ہو سکتی ہے۔ مثال: ابن ابی حاتم رحمہ اللہ (م ۱۲۵ ھ)کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے ’’معاذ بن ہشام عن ابیہ عن قتادہ عن أبی قلابۃ عن خالد بن اللجلاج عن ابی عباس عن النبی! رأیت ربی عزوجل........و ذکر الحدیث فی أسباغ الوضوء ونحوہ‘‘ کے بارے دریافت کیا تو میرے باپ نے فرمایا، اسے ’’الولید بن مسلم (م ۱۹۵ھ) عن ابن جابر‘‘ نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مکحول رحمہ اللہ (م ۱۱۳ ھ) کے ساتھ تھے، وہاں سے خالد بن اللجلاج گزرے تو مکحول رحمہ اللہ (م ۱۱۳ ھ) نے کہا کہ اے ابراہیم رحمہ اللہ ! ہمیں کچھ بیان کریں ۔ تو مکحول رحمہ اللہ (م ۱۱۳ ھ) نے کہا کہ یا ابراہیم حدثنا، تو اس نے کہا: حدثنا ابن عایش الحضرمی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! میرے باپ نے کہا کہ یہ اشتباہ ہے اور قتادہ رحمہ اللہ (م ۱۱۸ ھ) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ (م ۱۰۴ ھ) سے کچھ نہیں سنا۔ چنانچہ ابی قلابہ رحمہ اللہ (م ۱۰۴ ھ)کی کتاب سے نقل کرتے ہیں اس وجہ سے وہ عبدالرحمن بن عایش رحمہ اللہ (م ۱۱۸ ھ)اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے درمیان فرق نہیں کرتے۔۹۶؎ 6۔ ثقات کی مخالفت حدیث ثقات کی روایت کے مخالف ہو۔ مثال: ابن ابی حاتم رحمہ اللہ (م ۳۲۷ ھ) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا۔ابوزرعہ رحمہ اللہ (م ۲۶۴ ھ) سے بھی اسی حدیث ’’حسین المروزی عن جریر ابن حازم عن ایوب عن عکرمہ عن ابن عباس أن رجلا زوّج ابنتہ وھی کارھۃ ففرق النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بینھما‘‘کے بارے دریافت کیا گیا۔ انہوں نے کہا یہ خطا ہے اس میں مخالفت ثقات ہے۔ ثقات کی روایت میں یوں ہے: عن أیوب عن عکرمہ أن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال .... الخ، یہ روایت مرسل ہے۔ان ثقات میں ابن علیہ رحمہ اللہ (م ۱۹۳ ھ) اور حماد بن زید رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) وغیرہ کے ہاں یہ ہے کہ أن رجلاً تزوج........ الخ اور یہی درست ہے۔ 7۔ پوری جماعت کی مخالفت راوی حدیث بیان کرنے میں ایک قوم اور جماعت کی مخالفت کرے جن میں وہ روایت مشہور ومعروف ہو۔ مثال:ابن ابی حاتم رحمہ اللہ (م ۳۲۷ ھ) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے’’عن ثوری عن عبید اللّٰہ عن نافع عن ابن عمر قال کتب عمر إلی أمراء الاخبار أن لا یأخذ الجزیۃ إلا ممن جرت علیہ المواصی‘‘ تو میرے باپ نے کہا ان میں سے النافع عن أسلم زیادہ صحیح ہے، اگرچہ سفیان ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ھ)حافظ ہیں اور اہل مدینہ نافع رحمہ اللہ (م ۱۱۷ھ) کی حدیث کو امام ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ھ)کی حدیث سے زیادہ جانتے ہیں ۔ ۹۷؎ |