تو ایک دینی ذمہ داری ہے جس کے لئے تقویٰ کی شرط بہت اہم اور ضروری ہے۔ 5۔ مروّت: اس سے مراد کامل انسانیت ہے، یعنی راوی ٔحدیث کو ایسی خصلتوں سے متصف ہونا چاہئے جو اس کی کمالِ انسانیت پر دلالت کرنے والی ہوں اور صاحب ِمروّت شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ کثرتِ استہزا سے بچنے والا اور دوسروں کا مذاق اڑانے سے پرہیز کرنے والاہو، راستوں میں چلتے پھرتے کھانے پینے سے گریز کرنے والا اور حاجت ِانسانی کے لئے گذرگاہوں کو استعمال کرنے سے اجتناب کرنے والا ہو۔ اور ضبطِ راوی سے مقصود یہ ہے کہ راوی حدیث نے حدیث کو جیسے سنا ہے، ویسے ہی بیا ن کرے اور وہ بیدار مغز ہو۔ غفلت، سستی اور لاپرواہی جیسے عیوب سے بری ہو، لہٰذا ایسے راوی کی حدیث معتبر نہ ہوگی جو تلقین قبول کرنے والا یا شاذ اور منکر روایات بیان کرنے والا ہو، اسی طرح سہو و نسیان اور تساہل کے شکار راوی کی روایت بھی درخورِ توجہ نہیں ہوگی۔ یہ وہ شرطیں ہیں جو کسی راوی میں جمع ہوجانے سے اسے ثقہ مانا جاتاہے اور اس کی بیان کردہ حدیث حجت ہوتی ہے۔‘‘ ۲۹؎ کیا محدثین رحمہم اللہ تحقیق روایت میں عقلی تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے؟ قبول حدیث کی مذکورہ شرطوں پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اوّل تا آخر تمام محدثین کرام رحمہم اللہ نے روایت حدیث اور اخذ ِحدیث میں عقل کواستعمال کیا ہے اور کسی بھی حدیث کو تب ہی قبول کیا ہے جبکہ اس میں باقی شروطِ صحت کے ساتھ موافقت ِعقل کی شرط بھی پائی گئی ہے۔ ہاں البتہ انہوں نے آج کل کے تجدد زدہ حضرات کی طرح اپنی ذاتی عقل کو قرآن و سنت پر حاکم نہیں بنایا، کیونکہ یہ مقام اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے، ورنہ علمائِ حدیث نے تحمل حدیث اور ادائے حدیث میں عقل کی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ ٭ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’إن المحدثین راعوا العقل فی أربعۃ مواطن: 1۔ عند السماع 2۔ عند التحدیث 3۔ عند الحکم علی الرواۃ 4۔ عند الحکم علی الأحادیث۔ محدثین کرام رحمہم اللہ نے چار مقامات پر عقل کو استعمال کیا ہے اور کسی بھی حدیث کوغوروفکر کے بعد ہی قبول کیا ہے: تحمل حدیث کے وقت: لہٰذا ضروری ہے کہ راوی اخذ حدیث کے وقت صاحب ِتمیز ہو اور جو اس نے سنا ہے، اسے یاد رکھنے والاہو، بنا بریں ثقہ رواۃ جب کوئی حدیث سنتے تھے جس کی صحت کو تسلیم کرنا عقلاً محال ہوتا تو ایسی روایت کو وہ ضبط ِتحریر میں نہیں لاتے تھے اور اگر کبھی اسے بیان بھی کرتے تو اس کے ساتھ اس میں پایاجانے والا عیب اور ضعف بھی ذکر کردیتے اور سننے والے کے پاس اس کے ناقابل اعتبار ہونے کی وضاحت کردیتے تھے۔ ادائے حدیث کے وقت: ایسے وقت بھی علماے حدیث عقل و فکر اور صحت ِحدیث کی دیگر متعدد شرطوں پرپورا اُترنے والی حدیث کو ہی ذکر کیا کرتے تھے اور جو روایت ضعیف یا موضوع ہوتی، اسے نقل کرنے سے گریز کیا کرتے تھے۔ رواۃِ حدیث پر محاکمہ کے وقت: قبولِ حدیث کے لئے محدثین رحمہم اللہ کا معیا ربڑا سخت اور دقیق تھا اور وہ باریک بینی کے بعد ہی کسی چیز کو قبول کرتے تھے۔ اور اگر کسی راوی میں کوئی عیب اور ایسا نقص پایا جاتا جو اس کی حدیث قبول کرنے سے مانع ہوتا تو اس کی روایت کو ناقابل اعتبار سمجھ کر ردّ کردیتے تھے۔ حدیث پر صحت و سقم کا حکم لگاتے وقت: اس وقت بھی محدثین رحمہم اللہ نے عقل کو اس کا پورا حق دیا ہے۔ ہمارا مقصود اس بات کا اظہار ہے |