رکھتا ہے کہ خبروں کو نوٹ کرے اور آگے پہنچائے۔ قرآن مجید میں تو صرف اتنا مذکور ہے کہ سلیمان علیہ السلام چرند پرند اور دیگر جانوروں کی زبانیں بھی جانتے تھے لیکن یہ علم کہ پرندے بھی اتنے سمجھدار ہوتے ہیں ، ہمیں خبر ہی کے ذریعے معلوم ہوا ہے۔ لیکن ہمارا مبنائے استدلال یہ ہے کہ چونکہ یہ خبر ِواحد تھی ، جس سے علم نظری یا بالفاظ دیگر علم ظنی (جس میں تحقیق خبر سے قبل سچ، جھوٹ دو پہلو پائے جاتے ہیں ، چنانچہ وہ نظر وتحقیق کی محتاج ہوتی ہے) حاصل ہوتا ہے۔چنانچہ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: سننظر أصَدَقْتَ أم کنتَ من الکاذبین (النَّمل:۲۷) ’’یعنی ہم تیری خبر کی تحقیق کریں گے، اگر تجھے سچا پایا تو خبر مقبول ورنہ مردود ہوگی۔‘‘ بعد ازاں تحقیق ِخبر کے اس منہاج سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے الفاظ میں ’سلطان مبین‘ کہلائے جانے کے قابل ہوتا ہے، جس میں مزید کسی تحقیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ کہا جائے کہ ’تحقیق مزید‘ اور ’شدت احتیاط‘ کا تقاضا ہے کہ کچھ اُصولِ درایت اسناد سے قطع نظر بھی وضع کرکے روایت کی تحقیق کرنی چاہیے، جیساکہ ان اصولوں کا بیان تیسرے اور پانچویں باب کی دوسری فصل میں تفصیلا آرہا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ سورۃ الحجرات میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ سورۃ النمل کی روشنی میں منہجِ تحقیق خبر کو لینا تفسیر القرآن بالقرآن کے قبیل سے ہے جو کہ دیگر تمام تعبیرات وتشریحات پر مقدم ہے۔ ٭ محدثین کرام رحمہم اللہ نے صحیح حدیث کے لئے جو شرطیں عائد کی ہیں ، ا ن میں سے پہلی شرط عدالت ہے جو اہل فن کے بیان کے مطابق ایک جامع اصطلاح ہے اور اپنے اندر کئی اُمور کو سموئے ہوئے ہے۔ ٭ ڈاکٹرنورالدین عتر حفظہ اللہ صحت ِحدیث کے لئے عدالت اور ضبط کی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’عدالتِ راوی میں مندرجہ ذیل شرطوں کا پایاجانا ضروری ہے: 1۔ اِسلام: راوی حدیث کا حقیقی اسلام سے متصف ہونا ضروری ہے، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہُدَآئِ ﴾ یعنی کسی بھی بات کو قبول کرنے کے لئے لازم ہے کہ وہ اہل رضا اور پسندیدہ گواہوں کی گواہی سے ثابت ہو اور اہل رضا صرف اہل اسلام ہی ہوسکتے ہیں ۔ بنابریں کسی غیر مسلم کی بات ناقابل اعتبار ہوگی۔ 2۔ بلوغ: راوی حدیث ایسا ہونا چاہئے جو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ سن بلوغت سے ہمکنار ہو، کیونکہ روایت ِحدیث ایک بہت بڑی دینی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا متحمل بالغ ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ایسے نابالغ لڑکے کی روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے سے عاری ہو۔ (البتہ صاحب تمیز نا بالغ بچے کی روایت راجح قول کے مطابق قبول ہوگی۔) 3۔ عقل: قبولِ حدیث کے لئے یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ راوی حدیث ، اخذ ِحدیث کے وقت عقل وفکر سے کام لینے والا سمجھ دار عقلمند ہو۔ غفلت ، سستی، لاپرواہی جیسے رذائل سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا ہو اور حدیث کو عقل سلیم کے سانچے میں ڈال کر پرکھنے کے بعد غوروفکر سے قبول کرنے والاہو۔ 4۔ تقویٰ: اس سے مراد یہ ہے کہ راوی حدیث ہر قسم کے کبیرہ گناہوں سے بچنے والا، نیز صغیرہ گناہوں پر اصرار سے پرہیز کرنے والاہو، کیونکہ کبائر کا ارتکاب اور صغائر پر اصرار انسان کو فاسق بنادیتا ہے اور فاسق کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ اس قسم کے فاسق کی بیان کردہ روایت کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَائِ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾ ۲۸؎ ’’اے مسلمانو! اگر فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اچھی طرح اس کی تحقیق کرو۔‘‘ اس حدیث کے مفہوم مخالف سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر روایت لانے والا راوی فاسق نہ ہو تو اس کی روایت کو قبول کرنا واجب ہے،گویا کہ راوی فقیہہ وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ۔ اس کے علاوہ مالی معاملات میں قرآنِ کریم نے گواہوں کے عادل اور پسندیدہ نیز ان کے متقی اور پرہیزگار ہونے کی شرط عائد کی ہے، روایت ِحدیث |