اور تحقیق خبر میں اسے درمیان سے نکال کر کسی صورت بھی روایت کی تحقیق نہیں کی جاسکتی۔ شاذ اور علت کی بحث میں متن کے ذریعے محدثین کرام رحمہم اللہ سند میں موجود رواۃ کی غلطیوں پر متنبہ ہوتے ہیں ، چنانچہ اگر تحقیق حدیث کی عام صورت کو تحقیق المتن من حیث السند کہا جاسکتا ہے تواصولِ شذوذ وعلت کے ذریعے سے تحقیق ِحدیث کو تحقیق السند من حیث المتن کہنا چاہیے۔ مراد یہ ہے کہ مذکورہ دونوں صورتوں میں سے صورت جو بھی ہو تحقیق کا مدار بہر حال پھر بھی سند اور سند میں موجود رواۃ ہی بنیں گے۔ مشکل دراصل یہ ہے کہ فن ِ تاریخ ہو یا دنیا کے کسی دوسری علم کی کوئی بات، روزانہ چھپنے والی اخبارِ عالم ہوں یا عام روزہ مرہ کے معاملات میں موصول ہونے والی منقولات، سب میں حدیث کی طرح اسانید اور اسماء الرجال وغیرہ کا قطعا کوئی رواج نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر کا عامیانہ یا عرفی ذہن سمجھتا ہے کہ اب دنیا میں موجود تمام اخبار وآثار اسی نوعیت کے ہیں ، چنانچہ وہ تحقیق واقعہ کے نام پر واقعہ کی تحقیق بذریعہ متن ِ واقعہ شروع کردیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ متن کی تحقیق، متن کے ذریعے کرنا صرف ان اخبار کی مجبوری ہے جن کی اسانید یا رواۃ کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ ورنہ جس خبر میں اُس کے تمام مخبرین کا ریکارڈ محفوظ کرلیا گیا ہو اور اسے باقاعدہ اَسانید کے ساتھ اگلے زمانوں میں پہنچایا جائے، تو ایسی خبر کو اِسنادورواۃ سے قطع نظر، محض بذریعہ متن پرکھنا کسی عقل سلیم کا تقاضا نہیں ! کیونکہ روایت کے موصول ہونے کا مرکزی کردار راوی ہوتا ہے اس لیے تحقیق روایت کا بنیادی اور آخری مدار بھی وہی ہوگا۔ ٭ نہایت واضح رہنا چاہیے کہ جس طرح قرآن کریم نے وأمرہم شوری بینہم( الشوریٰ:۳۸) کہہ کر مسلمانوں کا نظام شورائی بتایاہے، اسی طرح شوری کے طریقہ کو مسلمانوں کی عقلوں پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی وضاحت بھی خود کر دی ہے۔ ( دیکھیں ،آل عمران:۱۵۹) اسی طرح جس طرح شریعت میں تحقیق روایت کا حکم دیا گیا ہے (سورہ الحجرات:۶)، عین اس طرح نے شارع علیہ السلام نے تحقیق خبر کا ذریعہ ومنہج تحقیق بھی خود ذکر فرما دیا ہے تاکہ اختلاف کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ دین اسلام نے الحمد للہ ہمیں کسی بھی شے میں ہماری ناقص عقل، کشف و وجدان اور حواس کا محتاج نہیں کیا، چنانچہ سورہ نمل میں موجود قصہ ٔ ہدہد میں آتا ہے کہ جب ہدہد ایک دن بروقت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں نہ پہنچا تو انہوں نے فرمایا: لأعذِّبنہ عذابا شدیدا أو لأذبحنّہ أو لیاتنی بسلطان مبین (النمل:۲۱) ’’ میں اسے سخت سزا دوں گا یا قتل کردوں گا، یاوہ میرے پاس کوئی واضح حجت پیش کرے۔‘‘ کچھ دیر ہی گذری کہ ہدہد آیا اور اس نے عرض کی: أحطت بما لم تحط بہ وجئتک من سبإ بنبإ یقین۔ (النمل:۲۲) ’’ میں سبا سے ایسی پختہ خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔‘‘ اس سے دو امور واضح ہوئے: 1۔ انسان کا مشاہدہ محدود ہے۔ جن چیزوں پر اس کا مشاہدہ محیط نہ ہو اس میں اعتماد خبر پر کرناچاہیے۔ 2۔ اس خبر کو پہنچانے والا کوئی راوی ہوتاہے اور وہ یہاں ہدہد ہے۔ اس نے جو خبر دی وہ یوں تھی: إنی وجدت امرأۃ تملکہم وأوتیت من کل شیء ولہا عرش عظیم۔وجدتہا وقومہا یسجدون للشمس من دون اللّٰہ وزین لہم الشیطن أعمالہم فصدہم عن السبیل وہم لا یہتدون....الخ (النمل:۲۳۔۲۶) اب دیکھ لیجیے کہ ہدہد کی خبریں عقل عام کے خلاف ہیں ، بلکہ خود ہدہد کا خبر دینا ہی عقل عام کے منافی ہے کہ پرندہ بھی اتنی ذہانت |