Maktaba Wahhabi

136 - 432
میں آگئے۔ جیسے اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ)، سفیان ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ ھ) اور شعبہ رحمہ اللہ (م ۱۶۰ ھ)، ان کے بعد عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ ھ) ، یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ)، عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) اور اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ) اور ان کے بعد یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (م ۲۳۳ ھ)، علی بن مدینی رحمہ اللہ (م ۲۳۴ ھ)اور اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) جنہوں نے سند ِحدیث کے ساتھ متن حدیث کی تنقید کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ اور غافل راوی کو جو صحیح اور غلط میں تمیز نہ کرسکے، انہوں نے مجروح ا ورناقابل اعتبار راویوں میں شمار کیا ہے۔ نقد متن اور محدثین کرام رحمہم اللہ اِس کے بعد علمائے مصطلح الحدیث کا دور آیا اور انہوں نے صحیح حدیث کی ایسی جامع تعریف کی جو سند کے ساتھ نقد ِمتن کی شرطوں پر مشتمل ہے اور یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے سند کی تحقیق کے ساتھ ساتھ متن حدیث کو بھی مکمل تحقیق کے بعد قبول کیا ہے۔ ٭ اس حوالے سے مولانا مودودی رحمہ اللہ (م ۱۴۰۰ ھ) ’ترجمان القرآن‘ کے شمارہ، دسمبر۱۹۵۸ء کے صفحہ ۱۶۸ اور ۱۶۹ پرلکھتے ہیں : ’’جو سنتیں اَحکام کے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی۔ سخت تنقید کی چھانیوں سے ان کو چھانا گیا۔ روایت کے اصولوں پر بھی ان کو پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی اور وہ سارا مواد جمع کردیا، جس کی بناء پر کوئی روایت مانی گئی یا رد کردی گئی تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے رد قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کرسکے۔‘‘ بنا بریں صحت ِروایت کے لئے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں سند اور متن دونوں کو تحقیق روایت میں مد نظر رکھا جاتا ہے اور یہ باور کرنا مشکل ہے کہ وہ اسانید ِحدیث کی تنقید پر زور دیتے رہے ہوں اور متونِ حدیث کو تنقیدی نگاہ ڈالے بغیر ہی قبول کرلیتے ہوں ، جبکہ متن کی تنقید، سند کی بہ نسبت بہت آسان ہے، کیونکہ اسانید کے رموز و اسرار سے واقفیت محدثین رحمہم اللہ کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے، تویہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ متن حدیث کی تنقید محدثین کرام رحمہم اللہ کی عقابی نگاہوں سے اوجھل رہ جائے۔ ۲۶؎ محدثین کرام رحمہم اللہ نے صحیح حدیث کی تعریف ہی ایسی پیش کی ہے جو سند اور متن دونوں کی تحقیق و تنقید پر مشتمل ہے۔ علوم حدیث کی معروف و مشہور کتاب ’مقدمہ ابن صلاح‘ میں صحیح حدیث کی تعریف ملاحظہ ہو : أما الحدیث الصحیح فھو الحدیث المسند الذي یتصل إسنادہ بنقل العدل الضابط إلی منتہاہ ولایکون شاذّا ولا معلّلا ۲۷؎ ’’ جس حدیث کونقل کرنے والے تمام رواۃ صاحب ِعدالت اور تام الضبط ہوں ، سند متصل ہو، معلول اور شاذنہ ہو اسے حدیث صحیح کہاجاتا ہے۔‘‘ ٭ محدثین کرام رحمہم اللہ نے صحت حدیث کے لیے جن پانچ شرائط کو بطور خاص ذکر فرمایا ہے ان میں سے پہلی تین کا تعلق بنیادی طور پر اگرچہ سند کے ساتھ ہے ، تاہم سند چونکہ بذات خود کوئی مقصود نہیں ہوتی، لہٰذا یہ کاوش اپنے نتیجہ کے اعتبار سے بالآخر تحقیق متن پر ہی منتج ہوتی ہے، کیونکہ دراصل سند سے متعلقہ یہ شرائط بھی متن حدیث تک رسائی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں ۔اس کے بالمقابل باقی دو شرطوں :عدمِ شذوذ، عدمِ علت کا براہ راست تعلق تحقیق ِمتن سے ہے، البتہ یہ دوسری بات ہے کہ متن میں پائے جانے والی کمزوری پر واقفیت کے بعد محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں ضعف کی بنیاد پھر بھی راوی ہی بنتا ہے، کیونکہ خبر کے پہنچانے میں وہ مرکزی کردار کا حامل ہے
Flag Counter