((إذا سمعتم الحدیث تعرفہ قلوبکم وتلین لہ أشعارکم وأبشارکم وترون أنہ منکم قریب فأنا أولاکم بہ وإذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم وتنفّر منہ أشعارکم وأبشارکم وترون أنہ منکم بعید فأنا أبعدکم منہ)) ۱۱؎ ’’جب تم کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل مانوس ہوں اور تمہارے بال کھال اس سے متاثر ہوں اور تم اس کو اپنے سے قریب سمجھو تو میں اس کا تم سے زیادہ حقدار ہوں ۔ اور جب کوئی ایسی حدیث سنو جس کو تمہارے دل قبول نہ کریں اور تمہارے بال وکھال اس سے متوحش ہوں اور تم اس کو اپنے سے دور سمجھو تو میں تم سے بڑھ کر اس سے دور ہوں ۔‘‘ 2۔ اِمام ابو الحسن علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ (م ۹۶۳ ھ) نے موضوعات سے متعلقہ اپنی مشہور کتاب میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے: ما حدثتم عن ما تنکرونہ فلا تأخذوا بہ فإنی لا أقول المنکر ولست من أہلہ ۱۲؎ ’’جب تم کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل مانوس ہوں اور تمہارے بال کھال اس سے متاثر ہوں اور تم اس کو اپنے سے قریب سمجھو تو میں اس کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور جب کوئی ایسی حدیث سنو جس کو تمہارے دل قبول نہ کریں ۔‘‘ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرمودات میں کیونکہ یہ بنیادیں موجود تھیں ، اس بنا پر محدثین کرام رحمہم اللہ نے حدیث کی تحقیق میں داخلی نقد سے کام لینے میں دریغ نہیں کیا۔ اس کی عملی مثالیں تو چھٹے باب کی تیسری فصل میں تفصیلا آئیں گی، یہاں ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ آیات کریمہ اوراحادیث نبویہ 1 کی روشنی میں آئمہ محدثین رحمہم اللہ نے قبول حدیث کے سلسلہ میں جن ’اصول روایہ‘ کو متعارف کروایا ہے وہ اس قدر معقول ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ اصول حدیث اس قدر جامع ہیں کہ ان کی گرفت میں سندومتن کے جملہ عیوب بیک قلم آجاتے ہیں اور کسی ایک جانب توجہ ہوتی ہے، نہ ہی دوسری طرف سے چشم پوشی۔ ان اصولوں کوگہرائی کے ساتھ جاننے والے واقف ہیں کہ عصر حاضر میں تحقیق اشیاء کا جو منہج رائج ہے، وہ نئی تحقیقات کی روشنی میں آئمہ متقدمین کے کسی اصول پر کوئی اضافہ کرنے کے ہرگز قابل نہیں ، کیونکہ ایسا کوئی ضابطہ موجود نہیں ہے جسے آئمہ محدثین رحمہم اللہ صدیوں قبل تحقیق حدیث میں بروئے کار نہ لائے ہوں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جبکہ انہوں نے ان اصولوں کو اپنی عقل سے وضع نہیں کیا، بلکہ دیگر فنون شریعت (اصول الدین،اصول فقہ، اصول تفسیروغیرہ) کی طرح فن حدیث اور اس سے متعلقہ اصطلاحات کو بھی شریعت یا شریعت کی روشنی میں سلف اول (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام رحمہم اللہ) کے ’عملی طرز تحقیق‘ سے اخذ فرماکر اصطلاحاتی زبان میں بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے تحقیق روایت سے متعلق شرعی نصوص کو اسلاف امت کے فہم وعمل کی روشنی میں اٹھا کر محض فنی اصطلاحات کی صورت دی ہے، ورنہ اپنے اساس ونظریات کے اعتبار سے ان کے تمام اصول تعلیمات شریعت ہی سے اخذ شدہ ہیں ۔ اسی وجہ سے علمائے امت فن حدیث کو شرعی علوم میں شمار کرتے ہیں ، ورنہ اگراس کی بنیاد شریعت یا تعامل صحابہ وتابعین پر نہیں ، تو کسی طرح بھی فن ’اصول حدیث‘ کو شریعت یا وحی کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ایسی صورت میں فن حدیث اور دیگر شرعی علوم وفنون کی تمام اصطلاحات کو بھی وضعی ہی شمار کرنا چاہیے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں فن حدیث کی اصطلاحی کتب میں جو اصول روایہ یا اصول درایہ ہمیں محدثین کرام رحمہم اللہ کی نسبت سے ملتے ہیں وہ ان کی ذاتی اختراع یا ایجاد ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کا سلسلہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شروع ہوتا ہے او ران کے بعد تابعین رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ سے ہوتے ہوئے بالاخر دور محدثین رحمہم اللہ میں نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے، جنہوں نے اسلاف کے |