Maktaba Wahhabi

131 - 432
2۔ اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿فَقَدْ لَبِثْتَ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ ۶؎ ’’ اے لوگو! عمر کا کافی بڑا حصہ میں تمہارے درمیان گذار چکا ہو، کیا تم غور نہی کرتے؟‘‘ علامہ تقی امینی اس آیت سے نقد متن کی دلیل یوں پیش فرماتے ہیں : ’’آیت میں صدق نبوت کی ضمانت زندگی کے اس حصے کے لیے پیش کی گئی ہے جو قبل نبوت ہے، تو بعد نبوت کی زندگی اور اس کے فرمودات میں کیونکر ایسا نقص پایا جائے گا جس سے علم وعقل کی خلاف ورزی لازم آئے۔‘‘۷؎ 3۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَلو نَشَائُ لأرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ﴾ ۸؎ ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہم چاہیں تو ہم ان منافقوں کو آپ کے سامنے لے آئیں توآ پ ان منافقوں کو ان کی زبان کے نشیب وفراز اور چہرے کی پرچھائیوں سے ضرور جان جائیں گے۔‘‘ اس آیت کریمہ سے متن کی تحقیق سے استدلال اس طرح کیا گیا ہے کہ کسی کی زندگی کے معمولات کو مسلسل جاننے کے بعد انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اس کا سچا یا جھوٹا ہونا متعین کرلیتا ہے، جیساکہ کفار مکہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو امین وصادق کے لقب سے پکارتے تھے۔ اس ضمن میں درج حدیث سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ((علیکم بالصدق، فإن الصدق یہدی إلی البر وإن البر یہدی إلی الجنۃ وما یزال الرجل یصدق ویتحری الصدق حتی یکتب عند اللّٰہ صدیقا۔وإیاکم والکذب،فإن الکذب یہدی إلی الفجور وإن الفجور یہدی إلی النار وما یزال الرجل یکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللّٰہ کذابا)) ۹؎ ’’ ہمیشہ سچ بولو! کیونکہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ جوآدمی مسلسل سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچائی کی تالاش میں رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ’صدیق‘ لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے اجتناب کرو! کیونکہ جھوٹ فسق وفجور کی طرف راہنمائی کرتاہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تالاش میں رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ’کذاب‘ لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ ٭ علامہ بلقینی رحمہ اللہ (م ۸۶۸ ھ)نے اس فنی ذوق کو یوں سمجھایا ہے: إن إنسانا لو خدم إنسانا سنین وعرف ما یحب وما یکرہ فادعی إنسان أنہ کان یکرہ شیئا یعلم ذلک أنہ یحبہ فبمجرد سماعہ یبادر إلی تکذیبہ ۱۰؎ ’’ اگر ایک شخص کسی کی برسوں خدمت کرکے اس کی پسند اور نا پسند سے واقفیت حاصل کرے اور پھر کوئی اس کی پسندیدہ شے کے بارے میں کہہ دے کہ وہ اس کو نا پسند کرتا ہے تو سننے کے ساتھ ہی اس کو جھوٹ قرار دے دے گا۔‘‘ مزید برآں مذکورہ آیت میں واضح ہدایت موجود ہے کہ اتنی کامن سینس ہر انسان کو بہرحال دی گئی ہے کہ وہ متکلم کے چہرے اور کلام کے اتار چڑھاؤ سے جان لیتا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ! اور یہی صلاحیت ’درایت‘ ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نقد متن سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخلی نقد کی بنیاد یہ حدیثیں ہیں : 1۔ مسند احمد میں حضرت ابو اسید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter