معنی میں لینے کی بجائے صرف تحقیق حدیث کے لئے استعمال کرتے ہیں ، کیونکہ ان کامیدان یہی ہے ۔ رہا حدیث سے استنباط کاتعلق تو یہ فقہاء رحمہم اللہ کا میدان ہے، ناکہ حدیث کی تحقیق کرنے والوں کا، جیساکہ اس کی مفصل وضاحت چوتھے باب کی فصل اول میں آئے گی۔ فی الوقت اس فصل میں ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ محدثین رحمہم اللہ کی تحقیق حدیث کا اگرچہ اصل میدان’ سند‘ ہے، لیکن اس کے باوجود مزید برآں اتمام فائدہ کے لیے انہوں نے’ متن‘ سے متعلقہ ضروری تقاضوں کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا۔ ٭ ڈاکٹر صُبحی صالح حفظہ اللہ فرماتے ہیں : علم مصطلح الحدیث بطبیعتہ تعریفہ لا یقتصر علی مباحث الاسناد بل یجاوزہا إلی المسائل المتعلقہ بالمتن أیضا ۲؎ ’’اصطلاح حدیث کا علم اپنی طبیعت کے لحاظ سے سند کے مباحث کے لیے خاص نہیں ہے، بلکہ متن سے متعلق جو مباحث ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں ۔‘‘ ’اہل درایت‘ محدثین کرام رحمہم اللہ پر یہ اعتراض بڑی شدو مد سے کرتے ہیں کہ انہوں نے حدیث کو من حیثُ المتن پرکھنے کی جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی، اگرچہ یہ دعوی فن حدیث سے ان کی لاعلمی کی دلیل ہے، لیکن اس کے باوجود ہم اس فصل میں انہیں بتائیں گے کہ جو مراد ’درایتی نقد‘ سے ان کی ہے محدثین کرام رحمہم اللہ نے اس قسم کی ’کمیوں ‘ کو بھی کسی طور پر تحقیق متن میں نظر انداز نہیں کیا۔ المختصر اس فصل کو اسی تناظر میں پڑھنا چاہیے کہ محدثین عظام رحمہم اللہ نے سند کے ساتھ ساتھ تحقیق عبارت پر کامل ومکمل کام کیا ہے، لیکن ہم اس بات کے علی وجہ البصیرت قائل ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ صرف اسی ’درایتی نقد‘ کے قائل ہیں جو بالاخر’ سند‘ پر منتج ہو۔ تحقیق متن کا ارتقاء اور محدثین کرام رحمہم اللہ کی خدمات قرآن کریم اور نقد متن جس طرح قرآن مجید کی رو سے خبر کی تحقیق میں رواۃ اور سند کو پرکھنے کا حکم موجود ہے۳؎ عین اسی طرح روایت کی تحقیق کرتے ہوئے حالات وقرائن کی روشنی میں اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی تعلیم خود قرآن مجید نے دی ہے۔ 1۔ سورہ نور میں واقعہ افک کے ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِأنْفُسِہِمْ خَیْرًا وَقَالُوْا ہٰذَا إفْکٌ مُّبِیْنٌ﴾ ۴؎ ’’ ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس بات کو سنا تو مؤمن مردوں اور عورتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیا اور کہا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کے بطلان کے قرائن اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کو سنتے ان کا جھوٹ اور افترا واضح ہوجاتا ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں روایت ہے کہ جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو اپنی اہلیہ سے فرمایا: ’’یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اے اُم ایوب رضی اللہ عنہا ! کیا تم ایسا کرسکتی ہو، انہوں نے کہا: بخدا نہیں ‘‘۔ توفرمایا: اللہ کی قسم! عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہتر ہیں ۔‘‘۵؎ |