Maktaba Wahhabi

129 - 432
متن حدیث کی تحقیق کے اصول تمہید قرآن کریم سے معنویت حاصل کرکے انسان کی تربیت کے لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں جو پروگرام مرتب کیا اور حدیث کے مختلف ابواب میں جس کی تفصیل موجود ہے، فنی ماہرین نے اس کی صحت کو چانچنے کے لیے متن اور سند دونوں سے متعلق ایک معیار مقرر کیا ہے۔ ٭ اس سلسلہ میں علامہ تقی امینی رقم طراز ہیں : ’’ متن اصل حدیث اور سند اس کے پہنچنے کے ذریعے اور راستے کو کہتے ہیں ۔ ’سند‘ اگرچہ اصل حدیث کا جزء نہیں ہے، لیکن چونکہ اولا حدیث کی صحت کا مدار سند ہی پر ہے، اس بنا پر محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک اس کی حیثیت کسی طرح بھی جز سے کم نہیں ہے۔سند پرگفتگو کو خارجی نقد اور متن پر گفتگو کو داخلہ نقد کہا جاتا ہے۔‘‘۱؎ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے مروی ہر حدیث سنداور متن دو اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔’ سند‘ سے مراد اساتذہ وتلامذہ کا وہ سلسلۂ رجال ہے جو یکے بعد دیگرے اس حدیث کے قائل تک جا پہنچتا ہے اور سلسلۂ رجال کے بعد جہاں سے الفاظ عبارت کی ابتدا ہوتی ہے اس کو ’متن‘ کہتے ہیں ۔ علمائے حدیث کے ہاں نقد ِمتن سے مراد یہ ہے کہ کسی حدیث کے متصل سند کے ساتھ عادل وضابط راویوں کے ذریعے سے موصول ہوجانے کے بعد متن حدیث یا الفاظ عبارت پر اس اعتبار سے تحقیق کرنا کہ کہیں اس متن یا عبارت میں کوئی ایسا جھول تو نہیں پایا جارہا جو اس روایت کی اِسنادی حیثیت کو مشکوک بنا دے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق حدیث کے لیے محدثین کرام رحمہم اللہ نے دو طریقہ کار اختیار فرمائے ہیں:نقد سند، نقد متن۔ لیکن حاصل دونوں کا ایک ہی ہے اور وہ یہی ہے کہ روایت کے موصول ہونے کا مرکزی کردار چونکہ راوی ہوتا ہے اس لیے تحقیق روایت کا آخری اور بنیادی مدار بھی وہی ہوگا۔ تحقیق حدیث کے پہلے طریقہ کو ہم علمی زبان میں تحقیق المتن من حیث السندکہہ سکتے ہیں اور دوسرے طریقے کو تحقیق السند من حیث المتن کا نام دیا جاسکتا ہے۔ تحقیق روایت کے باب میں نقد وتحقیق کے تمام تر پہلوؤں کو مد نظر رکھے جانے کے باوجود حیرت کا مقام ہے کہ حدیث ِنبوی کے خلاف آج مختلف محاذ قائم کئے جارہے ہیں ۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات اپنے مذہب اور مخصوص نظریات کے تحفظ کے لئے ایسے اُصول وضع کررہے ہیں ، جن کے ذریعہ سے ان احادیث ِنبویہ کو ردّ کیا جاسکے جو ان کے مذہب اور ذاتی نظریات کے خلاف ہیں ۔ انہیں خلافِ قرآن یا خلافِ عقل ہونے کے دعویٰ سے ٹھکرانے کی سعی ٔمذموم ہورہی ہے اور یہ کام اہل عجم میں زیادہ شدومد سے ہورہاہے۔ درحقیقت عجمی ذہنیت عربی نبوت کو مکمل طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور کسی بھی حدیث کو ’درایت‘کے خلاف قرار دے کر ردّ کردینا عام مشغلہ بن گیا ہے۔ جب عربی لغت میں لفظ ’درایت‘ عقل کے معنی میں ثابت ہی نہیں تو ’درایت‘ کو عقل کے معنی میں لے کر عقل یا عقل عام کے خلاف حدیث کو ردّ کردینے کا اصول بے محل اور بیجا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے ان غلط نظریات کو تروڑ مروڑ کر محدثین کرام رحمہم اللہ پر چسپاں کردیا جاتاہے اور اپنے من مانے مفہوم کو لینے کے لئے اورپھر اس کو ثابت کرنے کے لئے تلبیس کرتے ہوئے صحیحاحادیث کو ’درایت‘ کے نعرے سے رد کیا جاتاہے۔حالانکہ پہلے باب کی تیسری فصل میں وضاحۃً گذر چکا ہے کہ محدثین رحمہم اللہ لفظ درایت کو عقل کے
Flag Counter