ہے۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا بھانو آج بڑی سردی ہے۔ بھانو کہنے لگی: ’ہاں جی تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگر ہویاں ایں ۔‘‘ یعنی جی ہاں جبھی تو آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں ۔۔‘‘۔۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو بھانو کو سردی کی طرف توجہ دلائی تو اس میں بھی غالباً یہ جتانا مقصود تھا کہ آج شاید سردی کی شدت کی وجہ سے تمھاری حس کمزور ہو رہی ہے اور ’تمھیں پتا نہیں لگا کہ کس چیز کو دبار ہی ہو۔ مگر اس نے سامنے سے اور ہی لطیفہ کر دیا‘۔‘‘[1] قارئینِ کرام! مذکورہ عبارت و واقعہ کا ایک ایک لفظ مرزا کے کردار کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔۔۔ ہم حیا کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس واقعہ پر مزید کچھ تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ واقعہ نمبر 4 : ’’ بے پردہ بیوی کے ساتھ بھرے مجمع میں ٹہلنا ‘‘ ’’ بیان کیا حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے ، سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی کے ساتھ ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت’ غیور اور جوشیلی‘ تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر، ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا، آپ کہہ کر دیکھ لیں ۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں ، بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا:’ جاؤ جی، میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں ‘۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم سر نیچے ڈالے میری طرف آئے، میں نے کہا: مولوی صاحب ! جواب لے آئے۔‘‘ [2] قارئینِ کرام! مرزا کے ساتھی بھی یہ محسوس کرتے تھے کہ اتنے بھرے مجمع میں مرزا کا اپنی بیوی کے ساتھ یوں ٹہلنا مناسب نہیں ہے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کوئی تو وجہ ہوگی ناں کہ انہوں نے یہ منظر مناسب نہ سمجھا ،پھر مزید آپ مرزا کے اس عمل کو ایک عام انسان کی طرح نہیں بلکہ مدّعی نبوّت کے پیرائے میں دیکھیں تو بات سمجھ آجائے گی۔ |