Maktaba Wahhabi

91 - 290
64 نمبر پر مفتی صادق کا نام ہے۔ اس مفتی نے مرزا کے حالات پر ایک کتاب بھی تحریر کی جس کا نام ’’ذکر ِحبیب‘‘ رکھا۔ اس میں مفتی صادق اپنے اور مرزا قادیانی کے تھیٹر یعنی سینما جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشا ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا، صبح منشی ظفر احمد صاحب نے میری عدم موجودگی میں حضرت مسیح موعود کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات کو تھیٹر چلے گئے تھے، حضرت مسیح موعود نے فرمایا ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے۔ [1] قارئینِ کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ یہ حالت ہے پیشوائے قادیان اور اس کے صحابی مفتی ِ قادیان کی ۔جس مذہب کے پیشوا اور اُس کے صحابی و مفتی کی یہ حالت ہے اُس کی عوام کیسی ہوگی ؟ تھیٹر ، رقص وسرور ، شباب و کباب ، عورتوں و مجروں کے دلدادہ پیشواء، ناصرف یہ کہ شکایت پر مذمت، روک ٹوک کریں ،سمجھائیں بلکہ حضرت اُسے برا تک نہ سمجھیں اور الٹا تائید میں اپنا عمل بھی پیش کریں کہ ہاں جی! ہم بھی جاچکے ہیں جس سےبخوبی آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مرزا سمیت اُس کے حواریوں کا کردار کیسا تھا کیونکہ تھیٹر ہے کوئی عبادت گاہ یا تربیت گاہ تو نہیں اور وہ بھی ہندوستان کے تھیٹر۔ جبکہ دوسری طرف اسلام و اہلِ اسلام کے نبی رحمتِ دو عالم محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے عہدِ مبارک میں بھی ایسی محافل و مجالس ہوا کرتی تھیں ،ناچ ،گانا عرب کا رواج تھا اور گلوکارائیں بھی عمومی طور پر لونڈیا ں ہوا کرتی تھیں ۔لیکن ناصرف یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسی محافل و مجالس کا حصہ بنے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت الفاظ میں موسیقی و آلاتِ موسیقی کی مذمت بیان فرمائی اور علاماتِ قیامت میں انہیں ذکر فرمایا کہ موسیقی و آلاتِ موسیقی ناصرف عام ہوجائیں گے بلکہ اُن کے نام بدل کر انہیں حلال بھی قرار دیدیا جائے گااور آج ہم اس کی عملی تعبیر دیکھ رہے ہیں کہ جب اسے فن اور آرٹ کے نام پر حلال قرار دیدیا گیا بلکہ اسے روح کی غذاسے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ قرونِ اولیٰ سےلیکر آج تک اہلِ حق علماء اس کی حرمت پر متفق رہے ہیں ۔ ہاں ! ہم کہتے ہیں کہ یہ روح کی غذا ہے لیکن شیطانی روح کی ۔أعاذنا اللّٰہ منه
Flag Counter